مولاناحکیم محمد فاروق نقشبندی مجددی مظہری بہرائچیؒ

مولانا محمد فاروق  نقشبندی مجددی مظہری بہرائچی ؒ[1]


حضرت مولانا حکیم حافظ حاجی محمد فاروق نقشبندی مجددی مظہری بہرائچی  ؒ    ۲۹؍ شعبان ۱۳۰۳؁ھ مطابق ۲۲؍ مئی ۱۸۸۶؁ء کو آستانہ 
عالیہ حضرت مولنا سید نعیم اللہ شاہ  بہرائچیؒ (خلیفہ اجل حضرت مرزا مظہر جان جاناں شہید دہلویؒ)نزد مونسری مسجدمحلہ  بڑی ہاٹ شہر  بہرائچ  کے مقام پر طلوع ہوا جن کی نورانی کرنوں سے کائنات عالم کا ذرہ ذرہ جگمگا اٹھا۔آپ کے والد ماجد  سید حامد علیؒ ایک درویش صفت بزرگ تھے۔آپ کی والدہ بھی  دیندار، وصلوٰۃ   اور بلند پایہ کی بزگہ تھیں۔جو حضرت مولانا  سید ابو محمد نقشبندی بہرائچیؒ      کی ہمشرہ عزیزہ تھیں۔ تھیں۔ان کے آغوش میں آپ نے پروریش پائی ۔ابھی آپ چند سالوں کے تھے کہ آپ کے والد محترم کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔آپ کی پروریش کا گراں بار آپ کے ماموں کے کاندھوں پر آ پڑا۔جو اپنے زمانہ کے بلند پایہ بزرگ اور ولی کامل تھے۔آپ کی ابتدائی تعلیم گھر میں اپنے   ماموں کے زیر نگرانی ہوئی،ان کی آ پ پر خاص نظرعنایت تھے۔  بیحد عزیز رکھتے تھے اور ان سے آپنے حافظہ کیا اور عربی ،فارسی و اردو کی تعلیم میں مکمل عبور انکی زیر نگرانی حاصل کی۔           مذید تعلیم حاصل کرنے کے لئے آپ دارالعلوم جامع مسجد پٹکاپور میں داخلہ لیا،۲۲      برس کی عمر میں وہاں سے درس نظامی میں سند حاصل کی اور وہیں مدرس ہو گئے،یہ سلسلہ چند سالوں تک جاری رہا       تدریس کےساتھ ساتھ آپ کو علم طب کی طرف رٖغبت ہو ئی کچھ دنوں کے لئے تدریس کا سلسلہ موقوف کیا اور علم طب حاصل کرنے کی غرض سے لکھنؤ میں سکونت اختیار کی۔وہاں طب کی تعلیم کے لئے سلطان الاطباحکیم حافظ عبدالولی صاحب مرحوم جھوائی ٹولہ لکھنؤ کے شاگرد رشید بنے اور ان سے مکمل طب کی سند حاصل کی ۔ چونکہ آپ مذہب اسلا م کی تعلیم سے کامل طور سے واقف تھے۔مستند علماجن میں حضرت مولانا عین القضا  صاحب حیدآبادیؒ کی آپ پر خاص عنایت  تھی۔زمانہ قیام لکھنؤ میں مولانا کی صحبت میں اکثر اپنا وقت گذارتے تھے۔علم طب حاصل کرنے کے بعد آپ الہ آباد منتقل ہو گئے اور وہاں پانچ سال تک تعلیم اسلام کی خدمت میں مسلم بورڈنگ ہاؤس میو کالج الہ آباد میں درس تدریس کا کام شروع کیا اور ساتھ ہی ساتھ اپنا دواخانہ بھی شروع کیا ۔                                                   اسی وقت خلافت تحریک شروع ہوئی اور علی برادران کے کہنے پر آپ نے ملازمت کو خیرآباد کہا اور کانپور منتکل ہو گئے ،جہاں آپ کی ملاقات رئیس احرار حضرت  مولانا ابوالفضل حسرتؔ موہانی سے ہوئی ۔ان سے آپ کو بیحد عقیدت اور محبت تھی،روزآنہ  آپ کے دواخانہ پٹکا پور تشریف لاتےاور حالات حاضرہ پر گھنٹوں بحث و مباحثہ ہوتا۔اگر وہ نہ آتے آپ انکے دولت خانہ پر تشریف لے جاتے یہ سلسلہ قیام کانپور تک جاری رہا۔آپ کو علی برادران سے بیحد محبت تھی۔خلافت تحریک ایک ادنیٰ سپاہی کی حیثیت سے اس میں بڑھ چڑھ پر حصہ لیا،جس وقت مولانا شوکت علی کانپور تشریف لائے وہ آپ سے ملنے آپ کے دواخانہ  پٹکاپور آئے اور آپ کے ساتھ کافی دیر تک حالات حاضرہ پر گفتگو ہوتی۔                                                         آپ  نے دو حج کئے ۔ایک حج ۱۹۳۰؁ءمیں دوسرا            ۱۹۳۳   ء؁ میں اس حج میں رئیس الاحرار مولانا  حسرتؔ موہانی ؒ                آپ کے ہمسفر رہے۔ ملکی سیاست میں آپ ان کے شانہ شانہ بھرپورحصہ لیا۔آپ اسلام کے عظیم شعلہ بیان مقرر اور بہترین ادیب تھے۔آپ  کا انداز خطاب  نہایت دل نشیں اور آواز مسحور کن تھْی ۔تقریر کے دوران مکمل سکوت طاری رہتا ۔آپ نےچند مسلمانوں کے اصرار پرموضع کھرگوپورضلع گوندہ میں  موجودہ سیاست پر ایک واعظ دیا ۔اس سلسلہ میں آپ کو ایک سال کی قید بامشقت  کی سزا دی ۔عدالت عالیہ  میں جو بیان آپ نے دیا اس کا ایک ایک لفظ ہمارے لئے مشعل راہ کا کام کرتا  ۔آپ  نے فرمایا  کہ                                     ۔ نصلی علیٰ نبی الکریم میں مسلمان ہوں عام مسلمانوں کی طرح میرا بھی عقیدہ ہے کہ حضرت محمد مصطفٰے ﷑  کے ذریعہ خداوند تعالیٰ نے ہماری تمام ضروریات کے تعلیم کے لئے قرآن شریف نازل  کیا ہے۔اور اسی پر عمل کرنا تمام مسلمانوں کے لئے ضروری ہے۔ذیل  کی آیت بارھویں پارہ کی ہے ’’التائبون العبدون۔۔۔۔‘‘اس آیت شریفہ کا حاصل یہ ہے کہ کامل مسلمان ہمیشہ اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں اور نیک کاموں کی تعلیم دیتے ہیں اور برے کاموں سے منع کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین کی حفاظت کرتے  ہیں۔ابتدائے اسلام سے موجودہ زمانہ تک اس حکم کے پابند مسلمان موجود ہیں اور اس کو بجا طور پر اپنا فرض سمجھتے ہیں۔اس فرض سے ان کو روکنا  انکے اس فرض سے روکنا ہے۔جس کو کوئی مسلمان گوارہ نہیں کر سکتا افسوس یہ ہے کہ گوریمنٹ انگلشیہ  کے کارکونان   نے  اس فرض کی ادائیگی سےمسلمانوں کو روکنا  شروع کر دیا ہے،چنانچہ میری گرفتاری بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ہندوستان کے بہت علماء سزا یاب ہو چکے ہیں اور یقین  ہے مجھے بھی  سزا دی جائیگی کیونکہ آج کل کی  عدالتوں کا فیصلہ کسی انصاف پر مبنی نہیں ہوتا اور حقیقی انصاف سے حکام واقف نہیں  اورنہ انکے یہاں اسکی کوئی اہمیت  ہے۔مذہب میں مداخلت اسکا شیوہ ہو گیا ہے جیسا کہ دیکھا جا رہا ہے بیشمار شہادتیں اس سلسلے میں مل سکتی ہیں ۔خلافت اسلامیہ کے خلاف  گوریمنٹ انگلشیہ   کی دیرینہ  عداوت اور دوسری سلطنتوں سے اسکی تباہی کے لئے ساز وباز اور ہندوستان کی مدد سے اسکی تباہی ور جزیزرۃ العرب پر صریحی  احکام  کے خلاف قبضہ اور اس سلسلہ میں مسلمانوں کے مطالبات سے  بے پرواہی ایسے حالات ہیں کہ جسکی نظیر کسی مہذب گوریمنٹ   میں نہیں مل سکتی وعدہ کرکے بدل جانااسریرسزاد ہے۔  تمام ہندوستانی اس امور کے باعث ہندوستان کی موجودہ نظام سلطنت کو قرار دیتے ہیں ،ورنہ اس طرح ہم ہندوستانیوں کی آوازیں بیکار نہ جاتی اور حکومت کو ہمارے مطالبات پر پوری توجہ ہوتی پس موجودہ حالت پر نظر کرتے ہوئے پبلک کو اس کے حقوق سے آگاہ کرنا اور  اور شاہی نوکروں کے ظلم سے انہیں نجات  دلانے کی تدبیر بتلانا ،عدل و انصاف کاآئندہ کے لئے  قیام ہر ہندوستانی کا فرض ہوتا ہے کیونکہ آیت مندرجہ کے تحت میں یہ تمام امور داخل ہین جس کا ہم کو حکم دیا گیا ہےاورملازمان گوریمنٹ کی بے انصافیوں کی وجہ ہے۔اس کا اقتدار جا چکا ہے۔میں چونکہ مذہب اسلام سے کامل طور پر واقف ہوں مستند  علما ء کے پاس رہ کر اسلامی علوم میں تکمیل کی ہے۔پانچ سال تک تعلیم اسلام کی خدمت پر  مسلم بورڈنگ ہاؤس میو کالج الہ آبادمیں رہا،اب مکمل طور پربہرائچ اپنے وطن میں یہی خدمت انجام دے رہاہوں  کیونکہ  جس آیت مندرجہ  بالا اپنا مذہبی فرض سمجھتا ہوں ۔اس کے علاوہ ایک ایسے خاندان کا فرد ہوں جو بہرائچ میں چھ سو سال سے آیت مندرجہ پر عامل چلا آ رہااور جس میں مشہو علماء و فضلا گزرے ہیں۔۔ہندوستان میں  انکے معتقد بکثرت پائے جاتے ہیں۔ضلع گوندہ  وبہرائچ کے مسلمان خصوصیت کے ساتھ اس خاندان کے مرید و معتقدہیں۔                                          اس لئے مسلمانوں کو خاص طور پر ان کے فرائض سے آگاہ کرنا میرے لئے اوروں سے زیادہ ضروری ہی۔میں چند مسلمانوں کے اصرار سے  بہرائچ  سےکھرگوپورہوتا ہوا موضع بشناپور جا رہا تھا ابتدا میں کھرگوپور پڑگیا وہاں کے مسلمانوں کی خواہش پرزمانہ موجودہ کے لئے شرعی مسائل کا ایک مجمع کے سامنے اظہار کر دیا اس اظہار پر ایک فرضی مقدمہ چلایا گیاہے۔جسکا ایک گواہ ایک کانسٹبل ہے اور ایک سب انسپیکٹرکا عزیز ہے اور ایک ریاست رامپور کا ایک سپاہی ،جنہیں میرے دو گھنٹہ کی تقریر میں صرف دوجملہ ہی یاد رہےجیسا کے وہ بیان  کرتے ہیں۔شاہی نوکروں کی خوش قسمتی سے تقریر نوٹ کرنے والے بڑے بےفوش و فہم واقع ہوئے ہیں جنکو دو گھنٹہ کی تقریر میں صرف دو جملہ خلاف  قانون نظر آئے اور وہ بھی بالکل  علظ ۔                                                    یہ تمام امور ایک منصف حاکم کے لئے گواہوں کے بری سمجھتے ہیں    پورے مددگار ہیں، ثبوت کے صرف  ایک جملہ کی نسبت مجھے کہنا ہے۔ جملہ یہ ہے کہ سب مل کر قانون توڑ د۔میں  کانگریس  وخلافت کے پروگرام سے پورے طور پر واقیفت کی حالت نہ  میں ایسی غلیظ اور نازک تعلیم پبلک پلیٹ فارم پر  نہیں دے سکتا اور نہ کوئی عقلمند  وذی شعور آدمی ایسی حرکت کر سکتا ہے۔بقیہ جو کچھ کہا گیا ہے غلط  اور بالکل غلط ہے۔   
     
 میں نے اپنی تقریر میں موجودہ شاہی نوکروں کے ظلم و ستم پر صبر وسکون اور ظالم کی مدد کرنے کی شرعی ضرورت پر  زور دیا اور بتلایا  تھا کہ اپنے اخلاق  و عادت درست کر لو ظلم جاتا رہے گا ۔ظالم یا  ظلم چھوڑ دے گا یا خو د بخود تباہ ہو جائیگا۔جو شخص یہ جانے کہ فلاح ظالم ہے اس کے ظلم میں مدد دیگا  اس پر اسکے ظلم کا وبال پڑےگا۔اس عدالت سے مجھے کوئی انصاف کی امید ہوتی تو میں مقدمہ کی پیروی کرکے گواہ کے بیانات غلط ثابت کر دیتا ،مگر تجربہ نے یہ بتایا ہے کہ حق اور سچ کہنے کا  انصاف موجودہ عدالتو ں میں نہیں ہوتا  اور میں حق اور سچائی پر ہوں لہذا میراانصاف ہوگا  اس لئے پیروی  فضول  سمجھتا ہوں ۔فرضی حاکم کو اختیار ہے جو چاہے کرے یہ البتہ واضع رہنا چاہیئے کہ  جیل کے فرائض کے بعد علمی مشغلہ اور  درود وظائف اور عبادت کا مجھے موقع ملنا چاہیئے کیونکہ میری زندگی جیل کے دوسرے سیاسی قیدیوں کی  طرح بسر نہ ہو سکے،جیساکہ انکی حالت دیکھ کر اندازہ کرلیا گیا ہے۔ (دستخط محمد فاروق  مجددی  صدر مجلس خلافت و سیکٹریری ڈسٹرکٹ کانگریس،بہرائچ)                                                               قیام کانپور میں آپ نے کئی کتابیں تصنیف کی جس میں’’ آئینہ حرم ‘‘جلد اول ،’’پیام حق‘‘ حصہ اول و دوئم ،’معلم العربیہ‘‘    اور’’  سوانح سید شہدا ء حضرت سید سالار مسعود غازیؒ‘‘  خاص  طورسے قابل ذکر ہیں۔جس    درمیان شدھی  کی تحریک عروج پر تھی، اسکے خلاف آپ نے ’’پیام حق‘‘  حصہ اول تصنیف کی جو بہت زیادہ مقبول ہوئی ۔شدھی تحریک اور مسلہ خلافت میں سرگرمی سے کام کرنے میں یہ اپنے خاندان میں منفرد تھے۔حضرت مولانا شاہ نعیم اللہ مجددی نقشبندی ؒ کی تعلیم پر سختی سے کار بند رہے۔  آپ ہندوستان کے مشہور ماحی بدعت حامی سنت بزرگ حضرت مولانا شاہ     ابو الخیر صاحب نقشبندی مجددی مظہری   ؒسے بیعت  تھے اور انکے خلیفہ تھے۔انکی صحبت سے آپ کو بہت فیض ملا ۔آپ ان سے ملنے برابر دہلی تشریف لے جاتے اور ہفتوں انکی قدم بوشی کا شرف حاصل کرتے ۔جس وقت حضرت مولانا شاہ ابوالخیر ؒ رامپور کے قیام میں لوگوں سے ملنے جلنے پر  پابندی  لگائی گئی آپ ان سے برابر ملتے رہے  ۔جب  آپ کے بچے بڑے ہوئے ربیع اول کی  یکم تا بارہ تاریخ تک گھر میں محفل میلاد کی محفل منعقد کرتے اور اپنے بچوں سے     میلاد پڑھواتے یہ سلسلہ  آپ کے وصال تک جاری رہا۔                              ۱۹۱۶؁ ء میں آپ مزید تعلیم کے لئے جامعہ ازہر مصر جانا چاہتے تھے۔ آپ نے اپنا ارادہ   ظاہر کیا مگر آپ کے ماموں حضرت مولانا سید ابو محمدنقشبندی  مجددی مظہری  ؒ نے منع فرمایا  لہازا آپ نے جانے کا ارادہ  ملتوی کر دیا۔چند ماہ بعد ۱۹۱۶؁ ء میں ہی آپ کے ماموں کا انتقال ہو گیا ۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ          آپ کی شادی                                ۱۹۱۸؁ ء میں سید خاندان کے   جناب محمد ظہور صاحب مرحوم کی چھوٹی صاحبزادی  مسماۃ کبریٰ بیگم سے ہوئی تھی۔آپ کے دو لٹرکیاں مسماۃ حبصہ بیگم و مسماۃ  زکیہ بیگم  اور چارلڑکے ابو احمد فاروقی و ضمیر احمد فاروقی و حنیف احمد فاروقی  اور نقیب احمد فاروقی صاحب  ہوئے۔جن کے انتقال ہوچکے ہیں۔ آپ کا خاندان پاکستان قائم ہونے کے بعد مستقل طور پر کراچی پاکستان میں آبادہوا۔                                                              ۱۹۳۹؁ء میں آپ کی اہلیہ کی سخت بیمار  ہوئیں،انکے بچنے کی کوئی امید نہ رہی   بچے سب چھوٹے تھے مجبوراً اپنا دواخانہ کانپور سے بہرائچ منتقل کیا۔ حضرت عنایت اللہ خاں المشرقی بانی خاکسار تحریک بہرائچ تشریف لائے۔ ان سے بھی ملاقات کی اور بہرائچ کی تاریخ میں خاکسار تحریک کی سب سے بڑی ریلی ہوئی۔اس ریلی میں آپ نے اپنی خطابت کے جوہر دیکھلائے ۔یہ ریلی بہرائچ شہر سے باہر ایک بہت بڑے میدان میں ہوئی تھی جس میں تمام ہندوستان کے خاکسار نے شہر میں بہت بڑا مارچ  نکلا   جس میں آپ نے
بھی شرکت کی تھی۔  آپ نےبعد میں  مسلم لیگ  میں شمولیت اختیار کی اور بہرائچ مسلم لیگ کے صدر بنے۔چونکہ آپ کی  صحت دن بہ دن خراب ہوتی گئ  اس وجہ سے مسلم لیگ کی صدارت کو خیرآباد 
کہا ۔                                            ا    انتقال    :          
                                 چند ماہ کی علالت کے بعد  آپ ۲۹؍ شوال المکرم ۱۳۶۴؁ھ مطابق ۲۶؍ ستمبر ۱۹۴۶؁ء بروز پنجشنبہ(جمعرات)  بہرائچ میں اپنے مالک حقیقی سے مل گئے ۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔آپ کی نماز جنازہ حضرت مولان سید کلیم احمد صاحب   نقشبندی مجددی مظہری ؒ (سابق مہتمم ندوۃالعلماء لکھنؤ  و   سابق مالک شبلی بک ڈیپو نظیرآباد لکھنؤ)نے پڑھائی  ۔آپ  کو گوریمنٹ اسکول کے سامنے  مولوی باغ میں حضرت     شاہ نعیم اللہ نقشبندی مجددی مظہری ؒ کے  کے قدموں کے سامنے  سپرد خاک کیا گیا۔                                              آپ مشہورسینیر  وکیل بہرائچ  جناب سید مسعودالمنان  صاحب کے  سگے پھوپھا تھے۔    


[1]یہ مضمون آپ کےبڑے صاحب زادے نے لکھا تھا ۔جس کی ایک کاپی آپ کے داماد حاجی سید جمیل احمد (نامی دواخانہ شہر بہرائچ ) نے مجھے عنایت فرمایا۔ جنید احمد نور 

Comments

Popular posts from this blog

حضرت سید سالار مسعود غازیؒ

حضرت سید سالار مسعود غازیؒ- جنید احمد نور

Bahraich Great Freedom Fighters (Hindi and English)