Posts

Showing posts from 2018

جامعہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ کے اولین مہتمم

Image
مولانا الحاج محمد احسان الحق اول مہتمم جامعہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ  کا جائے مدفن مولانا الحاج محمد احسان الحق مہتمم اول جامعہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ مولوی محمد احسان الحق  ؒصاحب  اولین مہتمم جامعہ  مسعودیہ نور العلوم بہرائچ ہی نہیں تھے بلکہ ایک مثالی شخصیت تھے۔آپ  مثل انجمن کے تھے۔مدرسہ کا مہتمم ہونے کے علاوہ آپ عمدہ خطاط  ہونے ساتھ ہی ساتھ اکلیل پریس کے مالک بھی تھے۔ آپ کے صاحبزادے مولانا افتخار الحق ؒقاسمی صاحب کے مضمون سے ظاہر ہے۔جو  مولانا افتخار الحق صاحب کے صاحبزادے ڈاکٹر مولانا ابرارالحق  قاسمی ؔصاحب نے اس ناچیز کو فرہم کیا جس کا کچھ حصہ آپ سب کی خدمت میں پیش ہے۔ دادا جان مولانا نور محمد ؒصاحب کے تذکرے میں لکھا جا چکا ہے سیہ کار کے والد ماجد محمد احسان  الحق  دادا کی پہلی اولاد نرینہ ہیں۔اس لئے ظاہر ہے کہ انکی پیدائش پر غیر معمولی خوشی ہوئی ہوگی۔والد ماجد محمد احسان الحق صاحب کی ولادت 1316ھ مطابق 1898 ء میں  قصبہ رسڑا ضلع بلیا میں ہوئی۔  محمد احسان الحق نام رکھا گیا اور اسی نام سے عقیقہ ہوا۔جب کچھ سنِ شعور کو پہنچے تو پھر پڑھائی کی ابتداء ہوئی غالب گمان یہ ہے

مولانا سید اسلم شاہؒ بہرائچی ایک تعارف

Image
احاطہ شاہ نعیم اللہ المعروف بہ احاطہ اسلم شاہ میں واقع مولانا اسلم شاہ ؒ کی قبر مبارک مولانا سید اسلم شاہؒ کی پیدائش 1905 ء میں شہر بہرائچ کے مشہور و معروف خاندان میں ہوئی تھی۔آپ خاندانِ شاہ نعیم اللہ ؒ بہرائچی کے چشم و چراغ تھے۔۔آپ کے والد حضرت شاہ الحسن ؒ اپنے وقت کے مشہور و معروف بزرگ ہوئے ۔آپ خانقاہ نعیمیہ کے سجادہ نشین تھے۔ خانقاہ نعمیہ بہرائچ حالات آپ نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی ۔مزید تعلیم دارالعلوم ندوۃ العلماء سے حاصل کی تھی۔ بہرائچ و اطراف ضلع بہرائچ میں سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ مظہریہ نعیمیہ کی اشاعت میں آپ اہم کردار تھا۔آپ کے سیکڑوں مرید تھے۔خاص طور پر بہرائچ ،گونڈہ شہروں ۔ مولانا اسلم شاہؒ نے دارالعلوم ندوۃ العلماء سے سند فراغت حاصل اس کے بعد ارباب دارالعلوم ندوۃ العلماءنے بحیثیت مدرس انہیں آج کے پاکستان کے کوہاٹ(صوبہ سرحد؍خیبر پختونخوا ) بھیج دیا ۔ وہاں 12 سال تک تدرسی خدمات انجام دینے کے بعد 1938ء میں وہاں سے مستعفی ہو کر بہرائچ اپنی خاندانی خانقاہ میں زیب سجادہ ہوئے۔مولانا محمد ادریس ذکاؔ گڑہولوی اپنے پیر قطب القطاب حضرت مولانا محمد بشارت ک

Sufi Abu Mohammad Wasil Bahraichi Passed away

Image
Sufi Abu Mohammad Wasil Bahraichi ©2017 Juned Ahmad Noor  Last poet of #Persian #Poetry of District #Bahraich Sufi Abu Mohammad Wasil Bahraichi passed away yesterday evening at his resident in Bahraich  https://www.rekhta.org/poets/abu-mohammad-wasil Juned Ahmad Noor with Wasil Sahab and Haji A Salmani sahab at Wasil Sahab's resident in 2017 ************Life Sketch************* Sufi Abu Mohammad Wasil Bahraichi is passed away yesterday evening at own home .He was born on unofficial age was 103 years . Official age July 1922 (as per told to my when I meets first time for his biographical details for Urdu Wikipedia and my coming book "Bahraich Ek Tareekhi Sahar " ) in the house of Chaudhry Shafiullah and Mumtaz Bandi .His father was passed away in his childhood (Wasil' sahab's age 8 years.),after completion of the high school he join for some years accounts section of army and Post office's accounts section . His poetric

इज़हार वारसी एक नज़र

Image
इज़हार वारसी اظہار وارثی ‎ इज़हार वारसी जन्म मोहम्मद इज़हार वारसी 21 नवम्बर 1940  (आयु 77) बहराइच , उत्तर प्रदेश   भारत मृत्यु 21 अगस्त  2018 बहराइच , उत्तर प्रदेश   भारत मृत्यु स्थान/समाधि बहराइच , उत्तर प्रदेश   भारत व्यवसाय कवि , निवास मोहल्ला ब्राहमणीपुरा  बहराइच , उत्तर प्रदेश राष्ट्रीयता भारतीय शिक्षा कामिल उच्च शिक्षा जामिया उर्दू अलीगढ़ सन्तान चार सम्बन्धी हकीम सफदर वारसी हस्ताक्षर जालस्थल Facebook Page इज़हार वारसी  का जन्म 21 नवम्बर् 1940ई. बहराइच  के मोहल्ला ब्राहमणीपुरा में हकीम मोहम्मद अज़हर वारसी के यहाँ हुआ था । आपके पिता का नाम हाकिम अज़हर वारसी और माता का नाम कनीज़ सकीना था। इज़हार साहिब के दादा हकीम सफदर वारसी और पिता हकीम अज़हर वारसी को शहर के प्रसिद्ध चिकित्सको में शुमार होते थे ।हकीम सफदर साहब हाजी वारिस अली शाह के मुरीद थे और हाजी वारिस अली शाह पर एक पुस्तक लिखी जिसका नाम जलवा-ए- वारिस है। ये किताब उर्दू मे है। इज़हार साहिब के पिता अज़हर वारसी उस्ताद शायरों में शुमार होते थे। इज़हार साहिब सरकारी नौकरी से सेवानिवृत्त हुए थे। आपकी एक खास ब

Izhar warsi's Rare Interview with Wasif Farooqui Sahab

Image
Late  Izhar Warsi​ Legendary Poet of Bahraich.He was died recently on 21 August 2018 at Bahraich. Interview by Wasif Farooqui​ Sahab . With Thanks Izhar Sahab's Son In Law Danish Mirza​ Bhai .

آہ! استاذ الشراء اظہارؔ وارثی

Image
آہ!   استاذ الشرا ء     اظہار          ؔ وارثی بہت قریب ہیں ہم تھوڑا فاصلہ کر لیں۔۔۔۔۔اظہار        ؔوارثی          اظہار         ؔ وارثی صاحب کی ایک یادگار تصویر   ایک کمرے میں کرسی رکھی ہوئی ہے جس   کے بغل میں ایک ٹہنی رکھی ہوئی ہے اور کرسی پر ایک دبلے پتلے سے بزرگ   انسان لنگی اور کرتا پہنے ہوئے ،سر پر کپڑے کی ٹوپی ،   آنکھوں پر کبھی کالا چشمہ    لگائے ہوئے   کرسی کے بغل میں میز پر دوائے اور کچھ رسالے رکھے ہوئے ساتھ میں ہی    ایک سیمسنگ کا اسکرین ٹچ والا بہترین   موبائل رکھا ہوا ہےجس سے آپ اپنے دوستوں احباب کو واٹس اپ اور فون کے ذریعہ رابطہ   کرتے ، کمرے کی ایک دیوار پر کچھ اسناد فریم کی ہوئی لگی ہیں۔ملنے آنے والوں کے لئے کرسی کا انتظام   ہیں۔یہاں بیٹھنے والے بزرگ    شخص کوئی معمولی شخص نہیں   بلکہ وہ شہر بہرائچ کے عظیم الشان شاعر   جناب اظہار وارثی صاحب   تھے۔ ا ظہارؔ وارثی صاحب مرحوم کے ساتھ جناب احمد نثار اور میرے ماموں محمد فیض اللہ فیض ؔ بہرائچی اور جنید احمد نور  علاقہ اودھ کے مشہور و معاروف شاعر   اظہارؔ وارثی صاحب کا   تین دن قبل بروز منگل ۹ ذی ا

جمال وارثی بہرائچی

Image
سید عبد الشکور تخلص جمال ؔ وارثی کی پیدائش 1894ءمیں علاقہ ادوھ کے شہر بہرائچ کے محلہ قاضی پورہ میں ہوئی تھی۔ آپ کے والد محکمہ پولیس میں سب انسپکٹر سید عبدالشکور جمالؔ وارثی تھے۔ڈاکٹر عبرت بہرائچی نقوش رفتگاں میں آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ جمال صاحب مولانا وارث حسن صاحب کے مریدین میں تھے۔جن کا مزار لکھنؤ کی ٹیلے والی مسجد پہ ہے۔ آپ نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی۔ آپ کی شادی مرحوم سید کلیم احمد صاحب کی چھوٹی بہن سے ہوئی تھی۔ آپ کا مولانا شاہ نعیم اللہ بہرائچیؒ خلیفہ حضرت مرزا مظہر جان جاناںؒ کے خاندان سے قریبی تعلق تھا۔ جمال وارثی ریاست نانپارہ میں کافی وقت تک سربراہ کار کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دئے ۔آزادی کے بعد آپ نے کچھ دنوں تک حضرت سیف اللہ شاہ سجادہ نشین خانکاہ بڑی تکیہ میں منیجر کی حیثیت سے خدمات انجام دی۔ آپ کے پسماندگان میں ایک بیٹے شہر بہرائچ کے مشہور وکیل سید مسعود المنان ایڈوکیٹ اور ایک بیٹی جو پاکستان میں بیاہی ہے بقید حیات ہے اس کے علاوہ آپ کے ایک صاحب زادے سید عبد المنان (شہر بہرائچ کے مشہور ہاکی کھلاڑی )اور تین بیٹوں کا انتقال ہو چکا ہے۔ جمالؔ وارثی مرحوم کے

شیخ فیروز شہیدؒ بہرائچی جد امجد شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ

Image
ؒمزار مبارک شیخ فیروز شہیدؒ جد امجد شیخ عبد الحق محدث دہلوی شیخ فیروز شہید مصنف اخبار اخیار شیخ عبد الحق محدث دہلوی کے پر دادا تھے۔انکی مزار بہرائچ میں ہے۔ اخبار اخیار میں  شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے آپنے خاندان کے حالات شیخ فیروز شہید کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ملک موسیٰ کے کئی لڑکے تھے جن میں ایک کا نام شیخ فیروز تھا۔  شیخ فیروز میرے دادا کے حقیقی دادا تھے۔یہ شیخ فیروز تمام فضائل ظاہری و باطنی سے موصوف تھے۔اور دینی وکسبی نعمتوں سے مالامال تھے۔فن جنگ میں اپنی مثال نہ رکھتے تھے۔جنگی ترکیبوں میں اپنی قوت  طبع اور سلیقہ کے لئے بے نظیر تھے۔علم شاعری م،دلیری ،سخاوت ظرافت ،لطافت،عشق ومحبت اور دیگر صفات حمیدہ میں یکتائے روزگار تھے۔نیز دولت و حشمت،عزت وعظمت میں شہرۂ آفاق تھے۔ہمارے گھر میں شریں کلامی ،ذوق و ظرافت آپ ہی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔آپ سلطان بہلول کے دور حکومت کے ابتدائی زمانہ میں بقید حیات تھے۔آپ نے سلطان حسین شرقی کی آمد اور سلطان بہلول سے جنگ کا قصہ نظم کیا   تھا۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی  آگے لکھتے ہیں کہ یہ کلام ہمارے پاس تھا لیکن اس وقت نہیں ہے البتہ اس کے دو شعر یاد ہے ج

سید بڈھن بہرائچی سلسلہ نقشبندیہ کے مشہور بزرگ

Image
سید بڈھن بہرائچی کی مزار سید بڈھن بہرائچی  کی پیدائش شہر بہرائچ کے  محلہ بڑی ہاٹ میں ماہ رمضان  میں ہوئی تھی۔ولادت کے وقت آپ کے سر کے تمام بال سفید تھے اس  لئے   آپ کا نام بڈھن پڑگیا تھا۔ آپ کے والد کا نام مخدوم سید اللہ داد تھا۔ حالات سید بڈھن بہرائچی کا خاندان ساتویں صدی ہجری میں ہلاکو خاں کے پر فتن زمانہ سے پناہ حاصل کرنے کے لئے بغداد سے ہندستان آیا تھا اور علاقہ ادوھ کے بہرائچ میں اقامت اختیار کی اور بہرائچ میں ایک محلہ آباد مخدوم پورہ کے نام سے آباد کیا جو موجودہ وقت میں بڑی ہاٹ کے نام سے مشہور ہے۔ سید ظفر احسن بہرائچی اپنے والد مولانا سید شاہ اعزازالحسن نقشبندی مجددی (سجادہنشین خانقاہ نعیمیہ بہرائچ سے نقل کرتے ہے کہ قدیم زمانے میں بہرائچ میں دو مرتبہ ّآتش زنی ہوئی چوں کہ اس وقت بہرائچ کی ساری آبادی پھوس کے مکانات پر مشتمل تھی اس لئے سارا شہر جل گیا اور کوئی بھی اپنا سامان بچا نہ سکا اسی آگ میں میرا مکان بھی جل گیا اور میرے گھر کا اثاثہ قیمتی نوادرات اور کتابیں وغیرہ سب ضائع ہو گئیں اسی میں مخدوم سید بڈھن بہرائچی کے خاندانی حالات وغیرہ بھی تھے ۔اب صرف آپ ک