Poet and Writers of Bahraich By Faranjuned


Urdu Wikipedia Articales about Poet And Writers of Bahraich By Juned Ahmad Noor (Faranjuned)
  جمال الدین بابا جمالؔ بہرائچی

 نام*جما ل الدی جمال

تخلص* جمال ؔ بہرائچی

پیدائش * 1901ء

جائے پیدائش * محلہ قاضی پورہ شہر بہرائچ 

تلمذہ* 

اہلیہ*

اولاد* 

تعلیم * فارسی ، اردو

پیشہ* شاعر،تجارت 

مذہب* اسلام

وفات* 1982ء

جائے وفات*محلہ قاضی پورہ شہر بہرائچ اتر پردیش ہندستان

بابا جمال جنکا پورا نام جمال الدین تھا کی پیدائش 1901ء میں شہر بہرائچ میں ہوئی تھی۔بابا جمال اپنے دور کے بہت مشہور خوش مزاج شاعر تھے۔ 
 آپ نے عربی فارسی کی تعلیم حکیم سید ولایت حسین وصل ؔ نانوتوی تلمیذ میر نفیس ابن میر انیس سے حاصل کی جو اپنے عہد کے عربی اور فارسی کے قادرالکلام شاعر تھے۔جمال بہرائچی پورے شہر بہرائچ میں بابا جمال کے نام سے مشہور و معروف تھے۔آج بھی لوگ آپ کو بابا جمال کے نام سے ہی یاد کرتے ہیں۔
**حالات**

بابا جمال کی دوستی مولانا محفوظ الرحمن نامی سے زیادہ تھی۔بابا جمال نہایت خوش گو،خوش اخلاق اور خوش کلام تھے۔حدائق البلاغت ان کے بغل میں دبی رہتی تھی۔زودگو ہونے کے ساتھ ساتھ قادرالکام شاعر تھے۔آپ کا تکیۂ کلام بھیا تھا ۔آپ کی شہر کے قلب گھنٹہ گھر کے پاس کتابوں کی دوکان تھی۔آپ نے ایک تیل بھی ایجاد کیا تھا جس کا نام جمال ہیر آئل تھا۔جو اپنے وقت میں خوب بکتا تھا۔آمدنی کم اور خرچ زیادہ ہونے کی وجہ سے دوکان کا دیوالہ نکل گیا ۔ان کے بچے ان کے کہنے میں نہیں تھے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ دوکان کا کرایہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے مالک دوکان نے عدالت کے ذریعہ دوکان سے بیدخل کرادیا جس کی وجہ سے بیحد پریشان رہتے تھے۔عبرت بہرائچی اپنی کتاب ’نقوش رفتگاں ‘ میں لکتھے ہے کہ میں نے بیکل اتساہیؔ کو خط لکھا۔اور انہوں نے دوڑ دھوپ کر ان کا ساٹھ روپیہ ماہانہ وظیفہ مقررکرا دیا جو انھیں ہر ماہ ملتا تھا۔بنجاروں کی طرح ان کا سب کچھ ان کے کاندھوں پہ رہتا تھا۔یہاں تک کی سوئی تاگہ بھی جہاں چاہتے وہیں بیٹھ کر اپنا کرتا پائجامہ سی لیتے تھے۔بابا جمال کو سلسل بول کی بیماری بھی تھی ،لہٰذا ایک لوٹا بھی ہم سفر تھا۔ہر ایک کو بھیا کہہ کر پکارتے تھے ۔ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔تنک مزاج ضرور تھے۔پیدل چلنے کے عادی تھے۔

**ادبی خدمات**

بابا جمال کی ایک درسگاہ تھی جسے وہ کھلے آسمان کے نیچے گھنٹہ گھر میں اشوک کے پیڑ کے نیچے لگاتے تھے اور اپنے شاگردوں کو عروض و بیان کی تعلیم دیتے تھے۔ بابا جمال اپنے عہد کے بہترین خیاط تھے ۔بابا جمال کے شاگروں میں تعداد بہت ہے اس میں چار نام نمایاں حیثیت رکھتے ہیں ۔نعمت بہرائچی،رزمی بہرائچی،شاعر جمالی اور پارس ناتھ بھرمر ۔ دو شاعروں شاعر جمالی اور صابر جمالی کے علاوہ کسی شاگرد نے آج تک اپنے تخلص کے ساتھ جمال نہیں لکھا۔جمال بابا عربی و فارسی پر قدرت رکھتے تھے۔لوگو ں کو نصیحت بہت کرتے تھے۔ کبھی کبھار مسجدوں میں وعظ بھی فرماتے تھے۔عبرت بہرائچی اپنی کتاب میں لکھتے ہے کہ میں نے بھی جمال بابا سے دو کتابیں گلستاں اور بوستاں پڑھی ہیں ۔ بابا جمال اتنے سیدھے تھے کہ وہ دوست اور دشمن کی تمیز نہیں کرپاتے تھے۔آپ کو غزلوں پر اصلاح کرنے کا بیحد شوق تھا ۔شاعر ہو یا متشاعر جو بھی کہیں سے کوئی غزل لے کر آیا فوراََ اس کی اصلاح فرما دیتے تھے۔عبرت بہرائچی اپنی کتاب میں لکھتے ہے کہ ایک بار کا واقعہ ہے کہ ایک صاحب جگرؔ مرادآبادی کی ایک مشہور غزل لے کر برائے اصلاح بابا جمال کے پاس لائے۔بابا جمال نے بغیر سمجھے بوجھے اس غزل کی مرمت کرد ی اور واپس کر دی ۔یہ تھا آپ کے سیدھے پن کا حال ۔

جہاں تک جمال بابا کی شاعرانہ صلاحیت کی بات ہے وہ علوم ادبیہ پر ماہر انہ قدرت رکھتے تھے ۔عروض و بیان سے ملکر شعر کہتے تھے۔ان کے یہاں لفظوں کے ذخیرے تھے۔ ان کے یہاں قحط لفظی نہیں تھا۔اصول شعر پر دسترس رکھنے کی وجہ سے جمال بابا کا کلام ہر زہ سرائی سے پاک تھا۔جمال بہرائچی کے یہاں تجربات اور مشاہدات کا بھی فقدان نہیں ان کے یہاں قدامت پرستی پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور جدیدیت سے گریز ۔بابا جمال اپنے ہر شعر کو کئی مرتبہ عروض و بیان کی کسوٹی پر کستے تھے۔عبرت بہرائچی اپنی کتاب میں لکھتے ہے کہ یہ بات سو لاح آنہ درست ہے کہ ان کے دم سے نا جانے کتنے شاعر بن گئے لیکن افسوس ا س بات کا ہے اہل بہرائچ نے ان کی قدر نہیں کی۔

**ادبی شخصیات سے رابطہ** 

شہرت بہرائچی،وصفی بہرائچی،ڈاکڑ نعیم اللہ خاں خیالیؔ ،رافت ؔ بہرائچی،بابو لاڈلی پرساد حیرتؔ بہرائچی،خواجہ ریئس ،شوق بہرائچی،کیفی اعظمی،واصف القادری،ایمن چغتائی سجاد حسین طورؔ جونپوری ثم نانپاروی وغیرہ ان کے ہم عصر تھے۔ 

** وفات**

بابا جمال بہرائچی کی وفات 1982ء میں شہر بہرائچ میں ہوئی تھی۔اور انہیں شہر کے چھڑے شاہ تکیہ قبرستان میں تدفین کی گئی۔جس میں بڑی تعداد میں عوام اور ادب نوازوں نے حصہ لیا تھا۔

**نمونہ کلام** 

چمن چمن سے بدلی فضا فضا سےپو چھے کوئی صبا سے کیا ہو گیا ہے کیا سے
دلوں کے ساتھ آخر تو لے گئے چمن میںکانٹے لپٹ گئے جو دامان مصطفی سے




کھڑاتے ہوئے پتھر یہ صدا دیتے ہیںآبشاروں میں بھی ہے جان غزل خواں کوئی
چمن کی تختہ بندی کہ ہیں نور و نار یکجاوہیں بجلیوں کا مسکن وہیں میرا آشیانہ
ہے احساس مجبوری تو تب اے باغباں ہوتاکہ میری برق ہوتی اور تیرا آشیاں ہوتا



**حوالہ جات**

نقوش رفتگاں از عبرت بہرائچی *
***حکیم محمد اظہر وارثی اظہرؔبہرائچی***
Hakeem Azhar Warsi Azhar Bahraichi


حکیم محمد اظہر وارثی
پیدائشمحمد اظہر وارثی1907محلہ براہمنی پورہ بہرائچ اتر پردیشبھارت
وفات06 جولائی 1970ءمحلہ براہمنی پورہ بہرائچ اتر پردیشبھارت
آخری آرام گاہبہرائچ ،اتر پردیش بھارت
پیشہ،شاعری ،ادب سے وابستگی، حکیم
زباناردو
قومیتبھارتی
نسلبھارتی
شہریتبھارتی
تعلیمعلمیت
مادر علمیمدرسہ الٰہیات کانپور
مضموننعت ،غزل
شریک حیاتمریم خاتون
اولاداظہار وارثی
حکیم محمد اظہر وارثی کی پدائش 1907ء میں شہر بہرائچ کے مشہور حکیم و روہانی بزرگ حکیم محمد مظہر وارثی کے گھر میں ہوئی۔

حالات

حکیم محمد اظہر وارثی نے علمیت کی تعلیم کانپور کے مدرسہ مدرسہ الٰہیات کانپور سے حاصل کی جہاں آپ کے استادوں میں مولانا آزاد بھی شامل تھے۔حکیم اظہر صاحب کو شاعری کا شوق تھا اور آپ کو مشہور مجاہد آزادی و شاعر انقلاب حسرت موہانی سے شرف تلمذ حاصل تھا۔آپ شہر بہرائچ کے  مشہور حکیم تھے اور کامیاب شاعر بھی تھے۔

ادبی خدمات

حکیم اظہر وارثی کو ادب سے گہرا لگاؤ تھا۔حکیم اظہر صاحب نے حمد نعت میں خاص طور پر شاعری کی۔آپ کا کوئی بھی مجموعہ کلام شائع نہ ہو سکا۔آپ مشہور شاعر اظہار وارثی کے والد اور اثر بہرائچی کے چچا تھے۔ حکیم اظہر ؔ وارثی کا وصفیؔ بہرائچی،رافعتؔ بہرائچی، شوق ؔبہرائچی، ڈاکڑ محمد نعیم اللہ خاں خیالیؔ،حاجی شفیع اللہ شفیع ؔبہرائچی بابو لاڈلی پرشاد حیرتؔ بہرائچی، بابا جمال ؔ،واصف ؔالقادری نانپاروی،ایمنؔ چغتائی نانپاروی،محسن ؔزیدی،سید ساغر ؔ مہدی،عبرت ؔ بہرائچی،اثر بہرائچی ، وغیرہ سے گہرا تعلق تھا۔

وفات

حکیم اظہر وارثی کی وفات آپ کی رہائش گاہ محلہ براہمنی پورہ شہر بہرائچ میں 1970ء میں ہوئی تھی۔ آپ کی تدفین شہر بہرائچ میں ہوئی تھی۔جس میں کثیر تعداد میں عوام نے شرکت کی تھی۔

نمونہ کلام


اللہ نے دل فرینے زندانے زندگی
چھٹے تو مرہی جائے اسیرانے زندگی



عریشے بندگی سے لے کے تا ارش خداوندی
یہ سارا فصلہ اک لغدش گامے جنوں نکلا


حوالہ جات

  • اردو ویکیپیڈیا کے لئے اظہار وارثی کا انٹرویو





واصف القادری Wasiful-Qadri 

واصف ؔالقادری کی پیدائش 1917ء میں بہرائچ ضلع کی ریاست نانپارہ میں محلہ توپ خانہ ،نانپارہ میں ہوئی۔ آپ کے والد مولانا حاجی حافظ سید مقصود علی خیرآبادی درگاہ غوثیہ میں معتمد کے عہدے پر فائز تھے۔ آپ کے والد ایک مشہور بزرگ کی حیشیت رکھتے تھے۔ آپ نے کئی حج کیے تھے اور عرصہ دراز تک مسجد نبوی میں اذان دینے کا فریضہ انجام دیتے رھے اور وہیں علم دین حاصل کر کے سند حاصل کی اور وہاں کے بزرگوں سے فیوض وبرکات حاصل کیں ۔واصف صاحب کا نسبی تعلق سندیلہ کے سلسلہ قادریہ نقشبندیہ کے صوفی بزرگ سید مخدوم نظام سے تھا۔[1]آپ کا سلسلہ مخدوم الہدایہ قدس سٗرہ سے ملتا تھا۔آپ کے خاندان میں علم و فضل شعروادب اور تصوف کا شروع ہی سے چرچا رہا اور آپ کے خاندان میںمشاہیر علم و ادب پیدا ہوتے رہے[2] بعد میں آپ کے والد نے نانپارہ میں سکونیت اختیار کر لی ۔ واصف القادری کو بچپن سے ہی گھر میں دینی علمی ماحول ملا ،جس نے آپ کی ذہن کو روشنی،قلب کو تازگی اور روح کوجلا بخشی ۔ واصف صاحب کی ابتدائی دینی تعلیم حاصل کی اور اس سے پہلے کہ اعلیٰ تعلیم کی طرف رخ کرتے والد کا انتقال ہو گیا واصف القادری کی عمر اس وقت 13 سال کی تھی۔والد کی بے وقت کی جدائی نے بچپن میں ہی فکر معاش سے دو چار کر دیا لیکن بلند حوصلوں سے سر بلند کر لیا ۔بعد میں واصف صاحب نے حکمت کا پیشہ اختیار کیا۔ عوام میں آپ کو حکیم کی حیثیت سے پورے شہر میں مشہور ہو گئے۔لیکن آپ ایک اچھے شاعر کے طور پر بھی مشہور تھے ۔ 

ا دبی خدمات

واصف ؔالقادری صاحب نے ابتدائے شاعری میں اصغر رشیدی نانپاروی تلمذہ پیارے صاحب رشیدؔ لکھنؤی[3] سےمشورہ شخن حاصل کیا بعد میں مذہبی شاعری کی شاعری کی طرف رجحان ہوا اور مشق سے کلام میں پختگی محسوس کرنے لگے تو سلسلہ ختم کر کے اپنی ذاتی صلاحیتوں کو رہنما بنا لیا۔واصف القادری کے بارے میں بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ آپ صوفیانہ رنگ میں شعر کہتے تھے۔ واصف االقادری نے نعت کے ،غزل ،رباعیات ، قظعات اور مثنوی وغیرہ سبھی اصناف میں کلام لکھے ۔ ضلع بہرائچ کے نامور ادیب و شاعر شارقؔ ربانی آپ کے کلام کے بارے میں اپنے مضمون میں لکھتے ہے کہ واصف القادری کے کلام کا مطالعہ کرنے پر حسن ظن اور مبالغہ سے قطع نظر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ ہر لحاظ سے ایک شاعر تھے۔ان کی شاعری فن کے میعار پر پوری اترتی ہے۔ واصف صاحب کے کلام میں وہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں جو ایک اچھے شاعر کے لئے ضروری ہیں۔ اشعارحسن بیان کا دلکش نمونہ ہیں لیکن وہ مقصد کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔واصف صاحب کے کلام میں فکر و فن کا خوبصورت توازن اور خیال و بیان کا حسین امتزاج ملتا ہے ۔مگر افسوس کہ واصف القادری صاحب نے اپنی تمام عمر گوشہ گمنامی میں گزری ۔واصف صاحب نہ تو محفل شعروشخن کے حقیقی چراغ بنے اور نہ ہی کبھی انکی شہرت کا ستارہ چمکا ۔ واصف صاحب ایک شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان ، مایاناز استاد،خلوص کے پیکر ، ہمدردی کا مجسمہ ،محبت کا دریا اور انسانیت کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ان کی شخصیت دل نوازی وپاکیزگی ان کی شاعری میں بھی اتر آتی تھی۔نعتیہ اشعار میں حضورﷺ سے والہانہ عشق کی جھلک ملتی ہے۔ آپ کے 3 شعری مجموعہ شائع ہوئے 1.مجاز حقیقت 2.تجلیات حرم 3. عزم وایثار خیرآباد کے مشہور شاعر نجم خیرآبادی آپ کے حقیقی بہنوئی تھے۔نیر خیرآبادی،ریاض خیرآبادی، مضطر خیرآبادی،بسمل خیرآبادی وغیرہ آپ کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔

ادبی شخصیات سے رابطہ

خیرآباد کے مشہور شاعر نجمؔ خیرآبادی آپ کے حقیقی بہنوئی تھے۔نیرؔخیرآبادی،ریاضؔ خیرآبادی، مضطر ؔخیرآبادی،بسملؔ خیرآبادی وغیرہ آپ کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ نانپارہ کے شاعر شارقؔ ربانی کے والد ٹھاکر عبدالرب صاحب آپ کے دوست تھے ۔ شفیع بہرائچی محمد نعیم اللہ خیالی وصفی بہرائچی عبرت بہرائچی ،جمال بابا، ایمن چغتائی نانپاروی وغیرہ سے آپ کا گہرا رابطہ تھا۔ قمر گونڈوی اور نیپال کے مشہور شاعر جناب حاجی عبدالطیف شوقؔ نیپالی آپ کے شاگرد ہیں۔ آپ کے بہت سے شاگرد ملک نیپال اور نانپارہ میں ہیں۔

وفات

عبدالوارث مشہود علی تخلص واصف ؔ القادری کی وفات 4 نومبر 1984ء کو نانپارہ میں ہوئی۔ آپ کی تدفن نانپارہ میں ہی ہوئی۔

نمونہ کلام

نبی کی محبت میں کیا کیا بنوں گاتماشائی بن کر تماشا بنوں گا
مجھے بھی لے جا مدینے کے راہیتری خاک نقش کفِ پا بنوں گا
کبھی جذب کر لیں گی امواج رحمتکبھی بڑھ کے قطرہ سے دریا بنوں گا
کبھی وقف نظارہ ہوں گی نگاہیںکبھی بے نیاز تمنا بنوں گا
مدینے کے ذروں کو حاصل بنا کردرخشاں درخشاں ستارہ بنوں گا
تجھے خار طیبہ میں آنکھوں میں رکھ کربہار گل دین و دنیا بنوں گا
اگر بن سکا تو بہ قید محبتمحمد کے غم کا فسانا بنوں گا
کبھی سامنے ہوں گے انوار احمدمیں واصفؔ کبھی رشک موسیٰ بنوں گا

حوالہ جات

ڈاکٹر محمد نعیم اللہ خیالیؔ

Dr.Mohammad NaeemUllah Khan Khayali
Dr.Mohammad NaeemUllah Khan Khayali

 

ڈاکٹر محمد نعیم اللہ خیالیؔ کی پیدائش 15 اپر یل 1920ء میں شہر بہرائچ کے محلہ قاضی پورہ میں خان عبداللہ کے یہاں ہوئی ۔آپ کے والد محترم شہر کے زمینداروں اور مجاہد آزادی کے صفِ اوّل کے رہنماؤں میں تھے ۔آپ کے گھر میں دینی ماحول تھا ،آٓپ کے والد حضرت شاہ فضل الرحمٰن گنج مُرادآبادیؒ سے بیعت تھے ۔ڈاکڑ خیالی ؔ بعمر ۱۶ سال 1936ء میں شوقیہ طور پر ایک بزرگ حضرت سید مرحوم شاہ پیشاوری ؒ سے سلسلہ قادریہ مجدّدیہ میں بیعت ہو گئے،کتب درسیہ میں خلاصہ کیدانی اور قدوری کا درس بھی ان سے حاصل کیا ۔1938ء میں میں آپ کے شیخ پیشاور میں رحلت کر گئے۔اگلے سال1939ء میں ابتدائی عربی و فارسی ادب و طب یونانی کے اُستاد حکیم صاحب بھی انتقال فرما گئے ،جنکا آپ پر گہرا اثر تھا،جس سے آپ محروم ہو گئے ۔اگست 1940ء میں والد محترم کا بھی انتقال ہو گیا اس طرح لگاتار ۳۳ سالوں میں روہانی،علمی اور جسمانی سر پرتوں کا سایئہ شفقت سےمحروم ہو گئے ۔خیالی صاحب اسکولوں کالجوں کی زندگی سےمحروم رہے لیکن علم و ذکاء اورعقل و ادراک کے خالق نے آپ کو وہ استعداد،اہلیت اور عرفان و شعور عطا کیا جس کی بدولت خیالی صاحب روایتی مدرسوں اور رسمی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں قدم رکھے بغیر ہائی اسکول سے لیکر ایم۔اے۔تک سارے مدارج و مراحل پرائیوٹ امیدوار کی حشیت سے طے کئے ان کے علاوہ منشی کامل ،دبیر کامل ،فاضل طب وغیرہ کے امتحانات بھی نمایاں پوزیشن سے پاس کئے ۔

ا دبی خدمات

خیالی صاحب کوعربی ،فارسی،ہندی،اردو،تامل،تیلگو،بنگلہ کے علاوہروسی ،فرنچ،جرمن،انگریزی ، چینی،ترکی اور لاطینی زبانوں میں بھی کافی عبور تھا۔
لسانیات کے علاوہ ایلوپیتھی،طب یونانی،آیورویدک طریقہ علاج میں عملی طور پر زبردست مہارت تھی ،لیکن آپ نے علمی اور ادبی ذوق کی پرورش اور تعلیم و تدریس کے جذبات کے پیش نظر پیشۂ معلمی کا انتخاب کیا اور 1956ء سے 1980ء تک آزاد کالج بہرائچمیں اردو اورعربی کا درس دیتے رہے ۔ آخر میں کچھ وقت کے لئے کسان ڈگری کالج میں بحیسیت پروفیسر اردو تقرر ہو گیا۔سبکدوش ہونے کے بعد تصنیف و تالیف کے کاموں میں لگ گیے، اور "ادارہ لسانیات " اور " ادارۃ المصنفین" کا قیام کیا ۔ڈاکٹر خیالی صاحب کا ایک تاریخی کام حضرت شاہ ابوالحسن زید فاروقی کی فارسی کتاب "مناہیج السّیر "کا اردو ترجمعہ بنام "مدارج الخیر" کے کیا جو تصوف کی ایک اعٰلی درجہ کی کتاب ہے اور سلسلہنقشبندیہ مجدّدیہ کے راہ سلوک پر مستند کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔خیالی صاحب نے لسانیات میں ایک عظیم کام انجام دیا ہے ۔ آپ نے "اردو کی بین الااقوامی حیثیت" پر کئی کتابے لکھی ہے ۔خیالی صاحب کے ملک اور بیرون ملک کے ادبی و تنقیدی رسائل و جرائد میں تاعمر مضامین اور مقالے شائع ہوتے رہے جن کا کوئی شمار نہیں ۔آپ بہرائچ سے شائع ہونے والے ماہنامہ "چودھویں صدی" کے با نی اور مدیر تھے ۔

سماجی خدمات

لسانیات کے علاوہ ہومیوپیتھی،یونانی،آیورویدک طریقہ علاج میں عملی طور پر زبردست مہارت تھی ،اور اس فن کے ماہر افراد سے استفادہ کرتے رہے اور پورے شہر میں ہومیوپیتھی کے ایک مشہور طبیب ہوئے۔

وفات

31 دسمبر 1991ء کو آپ کا بہرائچ میں انتقال ہوا،اور تدفن احاتہ شاہ نعیم اللہ ؒ (خلیفہ حضرت مرزا مظہر جان جاناں ؒ  میں ہوئی ،جس میں شہر کے تمام بہت سے لوگوں نے سرکت کی تھی۔

Dr.Ibrat Bahraichi

Juned Ahmad Noor with Dr.Ibrat Bahraichi
Dr.Ibrat Bahraichi is senior poet of urdu from our hometown Bahraich.He lives in Nazirpura Bahraich.He served 6 decades in Urdu Adab as poet .His many books are published .
He is also Senior Homeopathic Doctor of Bahraich.
Abdul Aziz Khan”Ibrat Bahraichi” saal wiladat 1927. Zamin Ali Khan Aniq Bahraichi Dr.Ibrat Bahraichi ke par dada the, jo Aness Lucknawi ke shagird the. Dr.Naimullah Khan khayali sb. aur Abdur Rahman Khan Wasfi Bahraichi Janab Ibrat Bahraichi ke chacha the Ibrat Bahraichi Hazrat Nashsoor Wahidi ke shagird hai ab tak 46 kitaabe shaya ho chuki hai Dr. Ibrat sb Hazrat Jigar Muradabadi ke sath barso rahe.Jigar sb se aap ke bahut gahray rishte rahe. Unka qayaam Nazirpura Bahraich main. Wo ek Senior Homeopathic Doctor bhi hain. Mobile No. 09919514561
Dr. Ibrat Bahraichi by Juned Ahmad Noor ©





Dr. Ibrat Bahraichi  on His Clinic By Juned Ahmad Noor ©
************
Izhar Warsi
Izhar Warsi in November 2016 By Juned Ahamd Noor
Another Legendry Poet of Our City
Bahraich Izhar Warsi
Izhar Warsi is born on 21/11/1940
in the house of Hakeem
Mohmmad Azhar Warsi.His
father and His teacher is
Hakeem Mohammad Azhar
Warsi.
Izhar Warsi retired from Health
Deparment.He is another legend
and senior poet of Urdu of
Bahraich City .He lives in Mohalla
Brahamnipura Near Chitrshala
Talkies Bahraich.His Mobile no.is
09454896282
His 4 Books are published.
1.Kabootar Sabz Gumbad ke
2.kisht-e-Khayal
3. Soch ki Aanch
4.Boond Boond Shabnam
5.Shab-e-Tanhai Ka Chand
(Forthcoming).



اظہارؔ وارثی ضلع بہرائچ کی اس عظیم ہستی کا نام ہے جنکا سلسلہ مشہور صوفی بزرگ حضرت حاجی وارث علی شاہ کے خاندان سے ملتا ہیں۔اظہار وارثی کی پیدائش صوبہ اودھ کے تاریخی شہر بہرائچ میں 21 نومبر، 1940ء کو حکیم اظہر وارثی کے یہاں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام حکیم اظہر وارثی اور والدہ کا نام کنیز سکینہ تھا۔ اظہار صاحب کے دادا حکیم صفدر وارثی اور والد حکیم اظہر وارثی شہر کے مشہور معالجین میں شمار ہوتے تھے۔ حکیم صفدر صاحب حاجی وارث علی شاہ کے مرید تھے اور حاجی وارث علی شاہ پر ایک کتاب لکھی جس کا نام جلوۂ وارث ہے۔ یہ کتاب اردو میں ہے اور نایاب ہے۔ اظہار صاحب کیوالد حکیم اظہر استاد شاعروں میں شمار ہوتے تھے۔ اظہار صاحب سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوئے ہیں۔آپ کی ایک خاص بات ہے آپ صرف شعر لکھتے ہیں کسی مشاعرہ میں پڑھنے نہیں جاتے۔
ادبی سفر و خدمات
آپ ایک اعلیٰ درجے کے شاعر ہیں۔ آپ اردو شاعری میں نئے نئے تجربات کرنے کے لیے مشہور اور معروف ہیں۔ آپ نے اردو شاعری کی تمام اصناف میں اپنے کلام کا جادو بکھیرا اورکئی نء قسمیں ایجاد کیں۔ آپ نے 11 اصناف میں شاعری کی ہے۔ 1) غزل 2) نظم، نظم کی مشہورقسمیں ہیں (ا) پابند نظم (ب) آزاد نظم (ج) معرا نظم (د) نثری نظم۔۔ 3) رباعی 4) قطعات 5) ثلاثی 6) ماہئے 7) ہائکو 8) دوہے 9) بروے(اردو میں بروے اور چھند کو رائج کیا) 10).سانیٹ (14مصرعوں کی نظم انگرزی میں ہوتی ہے.) 11) ترایلے (یہ فرانسیسی زبان میں 8 مصرعوں کی ہوتی ہے)۔اس کے علاوہ مہتابی غزل اور لوک غزل کا ایجاد بھی آپ نے کیا۔
پروفیسر مغنی تبسم اظہار وارثی کے بارے میں لکھتے ہے کہ
’’اظہار وارثی جدید دور کے ایک اہم نمائندہ شاعر ہیں۔انہوں نے نظم ،غزل،رباعی،قطعہ،دوہا،ماہیا،ثلاثی،ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے اور ان میں پر صنف کو کامیابی سے برتا ہے اور اس کا حق ادا کیا ہے۔اظہار وارثی ایک باشعور اور حساس فن کار ہے۔اپنے ملک کے سماجی اور سیاسی حالات کے علاوہ عالمی مسائل پر ان کی گہری نظر ہے۔ان حالات اور مسائل پر کبھی بہ راہِراست اور کبھی استعاروں اور کنایوں میں اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔جن نظموں میں بہ راہِ راست خیالات اور جذبات کا اظہار کیا گیا ہے ان کو احساس کی شدت نے اثر انگیز بنا دیا ہے۔ اظہار وارثی کی اس نوع کی نظموں میں ’سوچ‘،’دشمنی کیوں‘،’دیوار‘،’جڑواں نظمیں ‘،’وعدوں کاموسم‘،اور ’میں نہیں جانتا‘،’بچے مفلس‘کے قابل ذکر ہیں۔‘‘
پروفیسر قمر رئیس اظہار وارثی کے بارے میں لکھتے ہے کہ
’’اظہار وارثی کے موضوعات اور سروکارو ں کا دائرہ بہت وسیع ہے۔اس سے اہم بات یہ ہے کہ اظہار وارثی کی تخلیقی سوچ روایتی شاعری کے رموز علائم پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ ہر تجربہ کی مناسبت سے نئے شعری اظہارات اور علائم تراشتی ہے اور اس طرح اپنے اسلوب کی ایک نئی پہچان بنانے کا جتن کرتی ہے۔ ?
’’حدود جاں میں بگولا سا ایک اٹھتا تھا
زمیں پہ رہتے ہوئے آسماں سے رشتہ تھا‘‘
’’مجھی میں گم تھا کہیں روشنی کا وہ بادل
تمام شب جو مرے دشت جاں پہ برسا تھا‘‘
’’کھلے تو ٹوٹ پڑیں ہر طرف سے کشتی پر
چھپے ہوئے کئی طوفان ،بادبان میں ہیں‘‘
’’جہاں میں اپنی حیات کیا ہے ثبات کیا ہے
شجر سے ٹوٹا جو کوئی پتا تو میں نے جانا‘‘
اظہار وارثی کے اشعار میں داخلی اور خارجی حقائق کی ترسیل کا اہم وسیلہ ایک روشن رمزیاتی فضا ہے جس میں ہلکا ساابہام بھی قاری کی تخیل کو متحرک کرکے معنوی گر ہیں کھولنے پر اکساتا ہے۔ان میں بعض جدید ی شعرا کی طرح ایشی تجریدی کیفیت نہیں ہوتی جو شعر کو گورکھدھندہ بنا دے۔اسی طرح جذبہ واحساس کی پیکرتراشی میں بھی اظہار وارثی کے یہاں ایک خاص تازگی اور طرفگی کا احساس ہوتا ہے۔
’’اسوچ کا گھر مہک رہا ہے ابھی
جیسے آکرکوئی گیا ہے ابھی‘‘
’’ایاد ماضی آج کاغم کل کا خواب
سوچ کا اک سلسلہ ہے اور میں‘‘
‘‘
Izhar Warsi with Asar Bahraichi and Juned Ahamd Noor
اہم شخصیات سے رابطہ
پروفیسر قمر رئیس، پروفیسر مغنی تبسم حیدرآباد، پروفیسر وہاب اشرفی پٹنہ، پدم سری شمش الرحمن فاروقی، پروفیسر سید امین اشرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،عابد سہیل پروفیسر وارث کرمانی ،یوسف ناظم ،پروفیسر ڈاکٹر سید خالد محمود،پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی ،افتخار امام صدیقی (ایڈیٹر شاعر ممبئی)،کرسن کمار طور(ایڈیٹر سر سبز،ہماچل پردیش)ڈاکٹر سعید عارفی وغیرہ نے آپکی کتابوں پر تبصرے لکھے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ آپ کی شخصیت پر بھی اپنی کلم چلائی ہیں۔۔ ، رفعت بہرائچی، وصفی بہرائچی، شفیع بہرائچی، جمال بابا، عبرت بہرائچی، محمد نعیم اللہ خیالی، محسن زیدی، ساغرمہدی بہرائچی،اثر بہرائچی،لطیف بہرائچی،اطہر رحمانی نعمت بہرائچی واغیرہ آپ کے ہمعصراور ساتھیوں میں ہیں۔
اعزازات
اردو اکادمی اترپردیش، انجمن ترقی پسند مصنفین نے آپ کو اعزازات اور اسناد سے سرفراز کیا ہے۔ ڈی۔ایم۔بہرائچ اور دیگر ادبی تنظیموں نے بھی آپ کو اعزازات اور سند سے سرفراز کیاہے۔ آپ کا جشن بھی منایا گیا، 9 جون 1979کو نگر پالیکا بہرائچ کے ہال میں جس میں ہندوستان کے نامور شعراء نے شرکت کی تھی۔ خاص مہمانوں میں حسرت جے پوری، غلام ربانی تاباں، خمار بارابنکی، معین احسن جذبی، ناظر خیامی، ہلال سیوہاروی، ایم.کوٹہوری راہی اور بیگم بانو دراب وفاء وغیرہ تھے۔ کیفی اعظمی صاحب کو بھی شرکت کرنی تھی پر فالج ہونے اور ڈاکٹروں کے منع کر دینے کی وجہ سے شرکت نا کر سکے تو اپنے پیسے لوٹادیئے۔ پروگرام کی نظامت ثقلین حیدرکلکتہ نے کی تھی۔
نمونہ کلام
’’میں سمندر ہوں میری سمت ہے ندیوں کا سفر
تم نے دیکھا ہے کہیں مجھ کو بھی آتے جاتے‘‘
دوہے
’’شاخ شاخ چھم چھم کرے پروہ کی پاذیب
پیڑ پیڑ کے سر چڑھا برکھا رت آسیب‘‘
’’انسانوں کے بیچ کیسا یہ سنجوگ
شیشے کے کچھ آدمی پتھر کے کچھ لوگ‘‘
’’ذات پات پوچھے نہیں دیکھے رنگ نہ روپ
چاند لٹائے چاندنی سورج باٹے دھوپ‘‘

لوک غزل
اظہار وارثی بہرائچی
میٹھی بانی بول کبیرا
کانوں میں رس گھول کبیرا
چھپے ہوئے ہیں اصلی چہرے
چٹرھے ہیں سب پر خول کبیرا
آج کی باتیں آج کے وعدے
ڈھول کے اندر پول کبیرا
بند ہر اک دھنوان کی مٹھی
خالی ہر کشکول کبیرا
دشمن کے شبد انگارے بھی
اپنیگلوں میں تول کبیرا

لیکن آج افسوس اس بات کا بہرائچ کی سرزمین پر اس نایاب ہیرے کو وہ مقام نہیں ملا جس کا وہ حقدار ہیں۔اظہار ؔ وارثی صاحب صحت خراب ہونے کے باوجود اپنے گھر پر ہر روز تین گھنٹہ کے لئے گھر کے باہری کمرہ میں بیٹھتے ہیں جہاں آپ ملنے والوں سے ملاقاتے کرتے ہیں۔راقم 
الحروف وقت وقت پر آپ سے ملنے جاتا رہتا ہے،جہاں کبھی کبھار جناب اثر ؔ بہرائچی صاحب سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔
***********
Syed Saghar Mehdi 
سید ساٖغر مہدی ساغر بہرائچی



نام* سید ساغر مہدی
تخلص* ساغر بہرائچی
پیدائش * 14جولائی1936 ء
جائے پیدائش*محلہ سیدواڑہ قاضی پورا شہر بہرائچ اتر پردیش ہندستان 
والد * سیدخورشید حسن زیدی
والد ہ* رقیہ بیگم 
تعلیم* انٹر
تلمذہ * شوقؔ بہرائچی 
مذہب*اہل تشیع
وفات * 20 دسمبر 1980ء
سید ساغرؔ مہدی بہرائچی کی ولادت 14جولائی1936ء کو شہر بہرائچ کے محلہ سیدواڑہ قاضی پورہ میں ہوئی تھی ۔آپ کے والد کا نام سید خورشید حسن زیدی اور والدہ کا نام محترمہ رقیہ بیگم تھا ۔
حالات 
سید ساغر مہدی کے والد کا انتقال آپ کے بچپن میں ہی ہو گیا تھا۔آپ کے بڑے بھائی سید اصغر مہدی نجمی ؔ 1954ء میں کراچی پاکستان گئے تھے اور وہیں بس گئے۔ والد کی وفات کے بعد آپ کی کفالت کی ذمہ داری آپ کے ماموں سید ہدایت حسین زیدی قمر نے لی اور بہن اور بھانجوں کی کفالت مذہبی ذمہ داری کے ساتھ نبھائی۔ساغر مہدی کے ماموں سید ہدایت حسین زیدی کو شعر و شاعری کا شوق تھا،ان کی رہائش گاہ پر اکژ ادبی محفلیں ہو تی رہتی تھی۔جسکی وجہ سے ساغر مہدی کو بھی شعری ذوق پیدا ہوا ۔بچپن میں آپ کی والدہ میر ؔ انیس کے مرشیے انہیں یاد کراتی تھی اور سنا بھی کرتی تھی۔جسکی وجہ سے ان طبعت میں ایک خاص قسم کی موزونیت اور سوزوگراز پیدا ہوا۔1958ء میں انٹر کا امتحان پاس کیا۔1967ء میں مقامی آزاد انٹر کالج سے تعلیم مکمل کی اوربعد میں مقامی مہاراج سنگھ انٹر کالج میں اردو کے استاد ہوئے۔
 ادبی خدمات
عرفان اباسی اپنی کتاب تزکرہ شعرا ئے اتر پردیش جلد دو م میں شاغر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ شاغر صاحب زمانۂ طالب علمی سے ہی شعر و ادب سے والہانہ دلچسپی اور گہرا لگاؤ رکتھے تھے ۔شاعری کے ابتدائی زمانے میں بہرائچ کے معروف شاعر اور مشہور مزاح نگار شوق بہرائچی سے اصلاح لی۔ تعلیم کو مکمل کرنے کے بعد 1960ء میں ساغر مہدی ایک صاحب فکر شاعر کی شکل میں افق ادب پر ابھرے اور آپ کا کلام ملک کے ادبی و دینی رسالوں میں شائع ہونے لگا ۔مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے۔مقامی اور قل ہند مشاعروں میں آپ کا کلام پسند کیا جاتا تھا ۔1967ء میں مقامی مہراج سنگھ انٹر کالج میں اردو کے استاد مقرر ہوئے ۔ شوق ؔ بہرائچی کے شاگرد ہونے کے بعد بھی تادم آخر ان سے اپنی وابستگی کا اظہار نہیں کیا ۔(نقوش رفتگاں صفحہ نمبر ۲۳)ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بھی آپ کے پروگرام نثر ہوئے ۔(نقوش رفتگاں صفحہ نمبر ۲۳)ملک کے تمام معتبر رسالوں اور جریدوں میں خوب چھپتے تھے۔ آپ کے دو شعری مجموعے ’حرف جاں‘ اور ’دیوانجلی ‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ بہرائچ کے مشہور شاعر عبرت بہرائچی اپنی کتاب نقش رفتگاں میں شاغر مہدی کے بارے میں لکھتے ہینں کہ شاغر بڑے سلیقہ کے ساتھ اپنے مقاصد کو ایک سلجھے ہوئے مربوط فکری پہلو میں رعنائی و دلکشی کے ساتھ پیش کرتے تھے ،ان کی مربوط اور غنائی طبیعت کی کار فرمائی ہر جگہ یکساں نظر آتی ہے۔ان کی طبیعت میں غور فکر استغراق بھی تھا ،اور مذہب کی تڑپ بھی۔شاغر صرف بہرائچ کے صف اول کے شاعر نہیں تھے بلکہ وہ آل انڈیا شہرت کے حامل تھے۔
شاغرکو دنیا میں اپنا تخلیقی عمل سب سے زیادہ عزیز تھا اوراس نے اپنا سب کچھ گنوا کر بھی فن کی آبروں نہیں بیچی۔(نیا دور دسمبر 1982ء)
شاعر و ادیب شارق ربانی کا کہنا ہے کہ ساغرؔ مہدی منفرد لب و لہجہ کے کہنہ مشق شاعر تھے اور آپ کے کلام میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک کامیاب شاعر ہونے کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔
ادبی سخصیات سے رابطہ
ساغرؔ مہدی بہرائچی اپنے وقت میں ضلع بہرائچ کیسب سے زیادہ مشہور شاعر ہوئے ۔آپ کا ادبی حلقہ بہت وسیع تھا جس میں فراق گورکھپوری،نشہور واحدی،شکیل بدایونی،مجروح سلطان پوری،خمار بارہ بنکوی،کیفی اعظمی،ڈاکڑ عرفان اباسی لکھنؤ،جمال ؔ بابا، و صفی ؔ بہرائچی، ڈاکٹر نعیم اللہ خیالیؔ بہرائچی،شفیع ؔ بہرائچی،محسنؔ زیدی،شوق ؔ بہرائچی،اثرؔ بہرائچی ،حاجی لطیف ؔ نوری لطیف ؔ بہرائچی ،عمر قریشی گورکھ پوری،عبرت بہرائچی،واصف القادری نانپاروی ، ایمن چغتائی نانپاوری ، مہشر نانپاروی،فنا نانپاروی، رافعتؔ بہرائچی ،نعمتؔ بہرائچی شاعر جمالی ، ملک زادہ منظور احمد،ساحر لدہیانوی،فنا نظامی،دل لکھنوی،انورمرزاپوری،خاموش غازی پوری،اجمل سلطان پوری،رزمی صاحب، اطہر ؔ رحمانی وغیرہ سے آپ کے قریبی تعلوقاتتھے۔
ادبی کاویشے
ساغرؔ مہدی بہرائچی صاحب کے دو مجموعہ کلام کے دو شعری مجموعے ’حرف جاں‘ اور ’دیوانجلی ‘ کے نام سے شائع ہو کر منظر عام پر آئے جبکہ نثری مضامین کا مجموعہ ’تحریر اور تحلیق‘ بھی شائع ہو اور داد تحسین حاصل کی۔دیوانجلی پر اردو اکادمی اتر پردیش اور بہار نے انعام سے بھی نوازا )تھا۔(تزکرہ شعرا ئے اتر پردیش جلد دو م 
وفات
سید ساغر ؔ مہدی کی وفات 20 دسمبر 1980ء کو ہوئی۔سید شاغر ؔ مہدی کی وفات کا واقعہ عبرت بہرائچی نے اپنی کتاب نقش رفتگاں میں اس طرح نقل کیا ہے میں بھی اس نشیت میں موجود تھا ۔ شاغر اپنی قیام گاہ پر منعقد ہونے والی بزم مسالمہ میں ممبر پر سلام پیش کر تے وقت جیسے ہی یہ شعر زبان پر آیا ۔
ََِِِّّْْ’ہر ایک چیز لٹاکر پیمبروں کی طرح | صداقتوں کا امیں موت کے دیار میں ہے
ممبر سے نیچے گر پڑے چیخ نکلی پانی مانگا غشی طاری ہوگئی۔ وہاں موجود احباب نے انھیں رکشہ پر لاد پھاند کر ہاسپٹل بھاگے ،لیکن راستہ میں ہی اس عظیم فنکار کی روح پرواز کر گئی۔ اور شاغر کے جسد خاکی کو ہزاروں سوگواروں کے بیچ کربلا کے باہر سپرد خاک کر دیا گیا۔اس وقت کے مشہور روزنامہ قومی آواز نے شاغر مہدی کی وفات کی خبر جلی شرخی میں شاغر مہدی کے اسی شعر صداقتوں کا امیں موت کے دیار میں ہے کے ساتھ دی تھی۔
(تذکرۂ شعرا ئے اتر پردیش جلد دو م جلد نمبر 2 از عرفان عباسی)
نمونہ کلام
لطیف بات بھی احباب کو کھٹکتی ہے 
نہ جانے کون سا کانٹا میری زبان میں ہے


غزل
تم ایک خط میں یہ لفظوں کا سلسلہ رکھنا 
 ہر ایک لفظ کا مفہوم دوسرا رکھنا 
تمہارے لب کی مہک راز فاش کر دیگی 
لفافہ بند نہ کرنا یو نہی کھلا رکھنا
میں زندگی میں کبھی تم سے مل بھی جاؤنگا 
یہ شرط ہے بچھڑنے کا حوصلہ رکھنا
نہ اتنا ٹوٹ کے ملے کر دل کو شک گزرے 
 خلوص میں بھی ضروری ہے فاصلہ رکھنا
ہمارا کیا ہے کہ بے چیرگی میں مست ہیں ہم
کبھی تم اپنے مقابل بھی آینۂ رکھنا
نہیں حسین مگر حرف حق تو زندہ ہے
میرا خیال بھی اے دشتِ کربلا رکھنا
میں اپنی ذات کو بھی مطمئن نہ کر پایا 
وہ کہہ گیا تھا زمانے کو ہم نوا رکھنا 
عجب دورِنمائش ہے کیا کہوں ساغرؔ 
 مجھے محال ہوا گھر میں بوریا رکھنا

حوالہ جات
*حرف جاں از ساغر مہدی بہرائچی
*دبستان بہرائچ مطبوعہ 2011 
*تزکرہ شعرا ئے اتر پردیش جلد دو م جلد نمبر 2 از عرفان اباسی 
*نقوش رفتگاں از عبرت بہرائچی
*نیا دور لکھنؤ دسمبر 1982ء
* قومی آواز لکھنؤ
**********
اثر ؔ بہرائچی
Asar Bahraichi 
نام : سید مبشر حسین 
تخلص:اثر ؔ بہرائچی
پیدائش: 01- اکتوبر1946ء
جائے پیدائش: شہر بہرائچ
والد :سید عنایت حسین 
والدہ :مسلمہ خاتون
شاریک حیات: اقیلا خاتون
تعلیم:ہائی اسکول
پیسہ : سرکاری ملازمت سے سبکدوش
رہائش: محلہ چکی پورہ چھوٹی بازار بہرائچ
تلمذ:حکیم محمد اظہر وارثی ،اظہار وارثی

سید مبشر حسین اثر ؔ بہرائچی کی ولادت شہر بہرائچ کے محلہ چکی پورہ چھوٹی بازار میں سید عنایت حسین صاحب کے گھر میں 01- اکتوبر1946ء کو ہوئی ۔آپ کی والدہ کا نام محترمہ مسلمہ خاتون تھا۔ اثر صاحب نے ہائی اسکول تک تعلیم حاصل کی ۔اثر صاحب جب ہائی اسکول میں تھے تبھی آپ کے والد کا انتقال ہو گیا جس کے سبب آپ ہائی اسکول تک ہی تعلیم لے پاے او ر 1964 میں سرکاری ملازمت اختیار کر لی اور ڈی۔ایم۔آفس میں ۔سن 2006ء میں آپ ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔
ادبی خدمات
اثر بہرائچی کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا۔ آپ کے چچا جناب حکیم محمد اظہر ؔ وارثی صاحب شہربہرائچ کے مشہور حکیم ہونے کے ساتھ ایک مشہور استاد شاعر بھی تھے اور حکیم اظہر صاحب نے ہی آپ کو اثر ؔ کا تخلص دیا اور آج آپ اثرؔ بہرائچی کے نام سے پوری ادبی دنیا میں مشہور ہے ۔اثر بہرائچی کے استاد حکیم محمد اظہر وارثی صاحب تھے، حکیم اظہر صاحب کے انتقال کے بعد آپ نے جناب اظہار وارثی سے سرف تلمذ حاصل کیا جو آج بھی حاصل ہے۔ اثر کا ادبی صفر 1969میں ملک محمد جائسی کی سرزمین جائس رائے بریلی کے ایک مشاعرے سے ہوا،اور اب تک ملک و بیرون ملک میں سیکڑوں مشاعرے پڑھ چکے ہے۔آپ نے 3بار کاٹھ مانڈوں میں 1969,1970,اور1972کے مشاعروں مین شرکت کی اور نیپال کے بادشاہ مہندرا ویر وکرم شاہ دیو اور ہندوستانی صفیر کے سامنے آپنے کلام کو پیش کیااور داد تحسین حاصل کیا ۔اسکے علاوہ سن 2010میں امریکہ کے مختلف شہروں جیسے نیویارک،ہؤسٹن،سیکاگو،نیو جرسی،کیلی فورنیا وٖغیرہ میں تقریبن 12مشاعروں میں سرکت کی اور سامعین کو اپنے کلام سے اثر انداز کیا ۔ آپ کا کلام ملک زادہ منظور احمد کے رسالے امکان میں شائع ہو شؤچکا ہے۔
ادبی سخصیات سے رابطہ
اثر صاحب کا ادبی صفر چار دایؤہیوں پر مشتمل ہے۔اس دوران آپ کا اپنے وقت کے تمام بڑے ادیبوں اور شاعروں سے رابطہ رہا۔جس میں فراق گورکھپوری،نشہور واحدی،شکیل بدایونی،مجروح سلطان پوری،خمار بارہبنکوی،کیفی اعظمی،جمال بابا،ڈاکٹر نعیم اللہ خیالیؔ بہرائچی،شفیع ؔ بہرائچی،محسن زیدی،شوق ؔ بہرائچی،عمر قریشی گورکھ پوری،عبرت بہرائچی،ملک زادہ منظور احمد،ساحر لدہیانوی،فنا نظامی،دل لکھنوی،انورمرزاپوری،خاموش غازی پوری،اجمل سلطان پوری،ساگر مہندی بہرائچی،رزمی صاحب،وصفی بہرائچی،وغیرہ سے آپ کے قریبی تعلوقات رہے۔اظہار وارثی صاحب کی سرپرستی میں آپ کی شاعری پرواز پر ہے۔
ادبی کاویشے
اثر بہرائچی صاحب کے دو مجموعہ کلام اب تک منظر عام پر آئے اور داد تحسین حاصل کی۔پہلا مجموعہ نعتیہ مجموعہ ہے جس کا نام ’’قلوب‘‘ ہے۔ جبکہ دوسرہ مجموعہ غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے اور اس مجموعہ کا نام ’’حرف حرف خوشبوں‘‘ ہے ۔
انعامات
اثر صاحب کو بہت سی ادبی تنظیموں نے انعامات سے نوازا ہے جون پور کی ایک تنظیم نے آپ کو ’منظوم‘ اوارڈ سے سرفراج کیا ہے۔ ضلع بہرائچ کے ڈی۔ایم۔ صاحب نے بھی انعامات سے نوازا ہے۔آل انڈیا ریڈیو لکھنوء اور دور درشن لکھنوء سے آ پ کئی بار اپنا کلام پڑھ چکے ہے۔
 نمونہ کلام

ممتا سے مہکی مہکی ہوائیں چلی گیئںبیٹا پکارنے والی صدائیں چلی گیئں
بخشے گا کون مر ہم زخم جگر اثرؔگھر سے ہمارے ماں کی دعائیں چلی گیئں

*********
Akmal Nazir An Urdu and English Poet 
Mohammad Akmal Nazir







Name ⇒Mohammad Akmal Nazir 
Father  ⇒ Mohammad Nazir Khan
Mother  ⇒ .Shahida Begum
Date Of Birth  ⇒ 1972 
Birth place⇒ Qazipura South Bahraich
Pen name ⇒ Akmal.
Education ⇒ Post Graduate 
Occupation ⇒ Teaching.
Mohammed Akmal Nazir was born on 1972 in Mohalla Qazipura South Bahraich.He had his early education in Modern Mission School (now Mornig Star Acadmy ) Bahraich.He passed his high school and intermediate examination from Azad Inter College bahraich.He obtained his graduate and post graduate degrees from Kisan P.G CollegeBahraich,now Thakur Hukum Singh P.G.College Bahraich.
His father Late Mohammad Nazir khan was a well known literary and religious figure of Bahraich . Akmal Nazir started writing Urdu poetry at the young age of 18 years . He studied Ghalib,Maulana Altaf Husain Hali,Alalma Iqbal etc ,and in the most recent time Faiz Ahmad Faiz,influenced his poetry.Though he has no ustad (Teacher)in Urdu poetry,he excels in writing his verses.He has his own style of poetry,he writes on current affairs,he is thought provoking poet but he does not called him self a poet.
He also composed almost 200 poems on various topics in English. One of his poem's a humble complaint  is among top five hundred poems of world on PoemHunter . This poem was also selected for the daily project of Overlook Academy of United States of America. 
Juned Ahmad Noor With Akmal Nazir 

Akmal Nazir with his Sons and Juned Ahmad Noor 


*Some example of his urdu poetry*
Tum ko hai gar qubool to haazir hai naqd yeh 
Hota nahi hai jaan ka sauda udhaar me 
,
Kiya jaaniye ki jaan pe dhata hai sitam 
Shauq e sukhan wari bhi ghame rozgaar me 
-
Rakh ke qadmo me kisi ke woh kulaah e aabru 
Gosha e dil me.n chhupaae shauq e sardaari rha .
-
Munjamid tha jinki aankho.n me.n tamannao ka khoo.n
Kis qadar dhundhla wahaa.n par khwaab e bedaari raha
-

Poochhte kya ho hamaare zarf ki 'Akmal'yahaa.n
Sohbat e aghyaar me.n bhi lahja me'yaari raha.

****A Humble Complaint****

You could have been more polite observing me, 
Your harsh words have left 
An indelible impression, 
Hatred can be won by love alone, 
As one gets relief from 
Scorching heat 
By gentle rain, 
As the sermon of a saint soothes 
The disturbed mind, 
Your words could have healed 
The wounds of my heart, 
For once you touched me, felt me, 
And covered your being with my love, 
As you said, 
You smelt my love and called it red rose, 
What's happened now? 
Thorns have grown on my lips, 
My being has become the grave of your hatred, 
Is it a diversion 
Or you're posing to be more sensible?


Comments

Popular posts from this blog

حضرت سید سالار مسعود غازیؒ

حضرت سید سالار مسعود غازیؒ- جنید احمد نور

Bahraich Great Freedom Fighters (Hindi and English)