Poet and Writers of Bahraich By Faranjuned
Urdu Wikipedia Articales about Poet And Writers of Bahraich By Juned Ahmad Noor (Faranjuned)
جمال الدین بابا جمالؔ بہرائچی
نام*جما ل الدی جمال
تخلص* جمال ؔ بہرائچی
پیدائش * 1901ء
جائے پیدائش * محلہ قاضی پورہ شہر بہرائچ
تلمذہ*
اہلیہ*
اولاد*
تعلیم * فارسی ، اردو
پیشہ* شاعر،تجارت
مذہب* اسلام
وفات* 1982ء
جائے وفات*محلہ قاضی پورہ شہر بہرائچ اتر پردیش ہندستان
بابا جمال جنکا پورا نام جمال الدین تھا کی پیدائش 1901ء میں شہر بہرائچ میں ہوئی تھی۔بابا جمال اپنے دور کے بہت مشہور خوش مزاج شاعر تھے۔
آپ نے عربی فارسی کی تعلیم حکیم سید ولایت حسین وصل ؔ نانوتوی تلمیذ میر نفیس ابن میر انیس سے حاصل کی جو اپنے عہد کے عربی اور فارسی کے قادرالکلام شاعر تھے۔جمال بہرائچی پورے شہر بہرائچ میں بابا جمال کے نام سے مشہور و معروف تھے۔آج بھی لوگ آپ کو بابا جمال کے نام سے ہی یاد کرتے ہیں۔
**حالات**
بابا جمال کی دوستی مولانا محفوظ الرحمن نامی سے زیادہ تھی۔بابا جمال نہایت خوش گو،خوش اخلاق اور خوش کلام تھے۔حدائق البلاغت ان کے بغل میں دبی رہتی تھی۔زودگو ہونے کے ساتھ ساتھ قادرالکام شاعر تھے۔آپ کا تکیۂ کلام بھیا تھا ۔آپ کی شہر کے قلب گھنٹہ گھر کے پاس کتابوں کی دوکان تھی۔آپ نے ایک تیل بھی ایجاد کیا تھا جس کا نام جمال ہیر آئل تھا۔جو اپنے وقت میں خوب بکتا تھا۔آمدنی کم اور خرچ زیادہ ہونے کی وجہ سے دوکان کا دیوالہ نکل گیا ۔ان کے بچے ان کے کہنے میں نہیں تھے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ دوکان کا کرایہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے مالک دوکان نے عدالت کے ذریعہ دوکان سے بیدخل کرادیا جس کی وجہ سے بیحد پریشان رہتے تھے۔عبرت بہرائچی اپنی کتاب ’نقوش رفتگاں ‘ میں لکتھے ہے کہ میں نے بیکل اتساہیؔ کو خط لکھا۔اور انہوں نے دوڑ دھوپ کر ان کا ساٹھ روپیہ ماہانہ وظیفہ مقررکرا دیا جو انھیں ہر ماہ ملتا تھا۔بنجاروں کی طرح ان کا سب کچھ ان کے کاندھوں پہ رہتا تھا۔یہاں تک کی سوئی تاگہ بھی جہاں چاہتے وہیں بیٹھ کر اپنا کرتا پائجامہ سی لیتے تھے۔بابا جمال کو سلسل بول کی بیماری بھی تھی ،لہٰذا ایک لوٹا بھی ہم سفر تھا۔ہر ایک کو بھیا کہہ کر پکارتے تھے ۔ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔تنک مزاج ضرور تھے۔پیدل چلنے کے عادی تھے۔
**ادبی خدمات**
بابا جمال کی ایک درسگاہ تھی جسے وہ کھلے آسمان کے نیچے گھنٹہ گھر میں اشوک کے پیڑ کے نیچے لگاتے تھے اور اپنے شاگردوں کو عروض و بیان کی تعلیم دیتے تھے۔ بابا جمال اپنے عہد کے بہترین خیاط تھے ۔بابا جمال کے شاگروں میں تعداد بہت ہے اس میں چار نام نمایاں حیثیت رکھتے ہیں ۔نعمت بہرائچی،رزمی بہرائچی،شاعر جمالی اور پارس ناتھ بھرمر ۔ دو شاعروں شاعر جمالی اور صابر جمالی کے علاوہ کسی شاگرد نے آج تک اپنے تخلص کے ساتھ جمال نہیں لکھا۔جمال بابا عربی و فارسی پر قدرت رکھتے تھے۔لوگو ں کو نصیحت بہت کرتے تھے۔ کبھی کبھار مسجدوں میں وعظ بھی فرماتے تھے۔عبرت بہرائچی اپنی کتاب میں لکھتے ہے کہ میں نے بھی جمال بابا سے دو کتابیں گلستاں اور بوستاں پڑھی ہیں ۔ بابا جمال اتنے سیدھے تھے کہ وہ دوست اور دشمن کی تمیز نہیں کرپاتے تھے۔آپ کو غزلوں پر اصلاح کرنے کا بیحد شوق تھا ۔شاعر ہو یا متشاعر جو بھی کہیں سے کوئی غزل لے کر آیا فوراََ اس کی اصلاح فرما دیتے تھے۔عبرت بہرائچی اپنی کتاب میں لکھتے ہے کہ ایک بار کا واقعہ ہے کہ ایک صاحب جگرؔ مرادآبادی کی ایک مشہور غزل لے کر برائے اصلاح بابا جمال کے پاس لائے۔بابا جمال نے بغیر سمجھے بوجھے اس غزل کی مرمت کرد ی اور واپس کر دی ۔یہ تھا آپ کے سیدھے پن کا حال ۔
جہاں تک جمال بابا کی شاعرانہ صلاحیت کی بات ہے وہ علوم ادبیہ پر ماہر انہ قدرت رکھتے تھے ۔عروض و بیان سے ملکر شعر کہتے تھے۔ان کے یہاں لفظوں کے ذخیرے تھے۔ ان کے یہاں قحط لفظی نہیں تھا۔اصول شعر پر دسترس رکھنے کی وجہ سے جمال بابا کا کلام ہر زہ سرائی سے پاک تھا۔جمال بہرائچی کے یہاں تجربات اور مشاہدات کا بھی فقدان نہیں ان کے یہاں قدامت پرستی پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور جدیدیت سے گریز ۔بابا جمال اپنے ہر شعر کو کئی مرتبہ عروض و بیان کی کسوٹی پر کستے تھے۔عبرت بہرائچی اپنی کتاب میں لکھتے ہے کہ یہ بات سو لاح آنہ درست ہے کہ ان کے دم سے نا جانے کتنے شاعر بن گئے لیکن افسوس ا س بات کا ہے اہل بہرائچ نے ان کی قدر نہیں کی۔
**ادبی شخصیات سے رابطہ**
شہرت بہرائچی،وصفی بہرائچی،ڈاکڑ نعیم اللہ خاں خیالیؔ ،رافت ؔ بہرائچی،بابو لاڈلی پرساد حیرتؔ بہرائچی،خواجہ ریئس ،شوق بہرائچی،کیفی اعظمی،واصف القادری،ایمن چغتائی سجاد حسین طورؔ جونپوری ثم نانپاروی وغیرہ ان کے ہم عصر تھے۔
** وفات**
بابا جمال بہرائچی کی وفات 1982ء میں شہر بہرائچ میں ہوئی تھی۔اور انہیں شہر کے چھڑے شاہ تکیہ قبرستان میں تدفین کی گئی۔جس میں بڑی تعداد میں عوام اور ادب نوازوں نے حصہ لیا تھا۔
**نمونہ کلام**
چمن چمن سے بدلی فضا فضا سے | پو چھے کوئی صبا سے کیا ہو گیا ہے کیا سے | |
دلوں کے ساتھ آخر تو لے گئے چمن میں | کانٹے لپٹ گئے جو دامان مصطفی سے |
کھڑاتے ہوئے پتھر یہ صدا دیتے ہیں | آبشاروں میں بھی ہے جان غزل خواں کوئی | |
چمن کی تختہ بندی کہ ہیں نور و نار یکجا | وہیں بجلیوں کا مسکن وہیں میرا آشیانہ | |
ہے احساس مجبوری تو تب اے باغباں ہوتا | کہ میری برق ہوتی اور تیرا آشیاں ہوتا |
**حوالہ جات**
نقوش رفتگاں از عبرت بہرائچی *
***حکیم محمد اظہر وارثی اظہرؔبہرائچی***
Hakeem Azhar Warsi Azhar Bahraichi |
حکیم محمد اظہر وارثی | |
---|---|
پیدائش | محمد اظہر وارثی1907محلہ براہمنی پورہ بہرائچ اتر پردیشبھارت |
وفات | 06 جولائی 1970ءمحلہ براہمنی پورہ بہرائچ اتر پردیشبھارت |
آخری آرام گاہ | بہرائچ ،اتر پردیش بھارت |
پیشہ | ،شاعری ،ادب سے وابستگی، حکیم |
زبان | اردو |
قومیت | بھارتی |
نسل | بھارتی |
شہریت | بھارتی |
تعلیم | علمیت |
مادر علمی | مدرسہ الٰہیات کانپور |
مضمون | نعت ،غزل |
شریک حیات | مریم خاتون |
اولاد | اظہار وارثی |
حکیم محمد اظہر وارثی کی پدائش 1907ء میں شہر بہرائچ کے مشہور حکیم و روہانی بزرگ حکیم محمد مظہر وارثی کے گھر میں ہوئی۔
حالات
حکیم محمد اظہر وارثی نے علمیت کی تعلیم کانپور کے مدرسہ مدرسہ الٰہیات کانپور سے حاصل کی جہاں آپ کے استادوں میں مولانا آزاد بھی شامل تھے۔حکیم اظہر صاحب کو شاعری کا شوق تھا اور آپ کو مشہور مجاہد آزادی و شاعر انقلاب حسرت موہانی سے شرف تلمذ حاصل تھا۔آپ شہر بہرائچ کے مشہور حکیم تھے اور کامیاب شاعر بھی تھے۔
ادبی خدمات
حکیم اظہر وارثی کو ادب سے گہرا لگاؤ تھا۔حکیم اظہر صاحب نے حمد نعت میں خاص طور پر شاعری کی۔آپ کا کوئی بھی مجموعہ کلام شائع نہ ہو سکا۔آپ مشہور شاعر اظہار وارثی کے والد اور اثر بہرائچی کے چچا تھے۔ حکیم اظہر ؔ وارثی کا وصفیؔ بہرائچی،رافعتؔ بہرائچی، شوق ؔبہرائچی، ڈاکڑ محمد نعیم اللہ خاں خیالیؔ،حاجی شفیع اللہ شفیع ؔبہرائچی بابو لاڈلی پرشاد حیرتؔ بہرائچی، بابا جمال ؔ،واصف ؔالقادری نانپاروی،ایمنؔ چغتائی نانپاروی،محسن ؔزیدی،سید ساغر ؔ مہدی،عبرت ؔ بہرائچی،اثر بہرائچی ، وغیرہ سے گہرا تعلق تھا۔
وفات
حکیم اظہر وارثی کی وفات آپ کی رہائش گاہ محلہ براہمنی پورہ شہر بہرائچ میں 1970ء میں ہوئی تھی۔ آپ کی تدفین شہر بہرائچ میں ہوئی تھی۔جس میں کثیر تعداد میں عوام نے شرکت کی تھی۔
نمونہ کلام
اللہ نے دل فرینے زندانے زندگی
چھٹے تو مرہی جائے اسیرانے زندگی
|
عریشے بندگی سے لے کے تا ارش خداوندی
یہ سارا فصلہ اک لغدش گامے جنوں نکلا
|
حوالہ جات
- اردو ویکیپیڈیا کے لئے اظہار وارثی کا انٹرویو
واصف القادری Wasiful-Qadri
واصف ؔالقادری کی پیدائش 1917ء میں بہرائچ ضلع کی ریاست نانپارہ میں محلہ توپ خانہ ،نانپارہ میں ہوئی۔ آپ کے والد مولانا حاجی حافظ سید مقصود علی خیرآبادی درگاہ غوثیہ میں معتمد کے عہدے پر فائز تھے۔ آپ کے والد ایک مشہور بزرگ کی حیشیت رکھتے تھے۔ آپ نے کئی حج کیے تھے اور عرصہ دراز تک مسجد نبوی میں اذان دینے کا فریضہ انجام دیتے رھے اور وہیں علم دین حاصل کر کے سند حاصل کی اور وہاں کے بزرگوں سے فیوض وبرکات حاصل کیں ۔واصف صاحب کا نسبی تعلق سندیلہ کے سلسلہ قادریہ نقشبندیہ کے صوفی بزرگ سید مخدوم نظام سے تھا۔[1]آپ کا سلسلہ مخدوم الہدایہ قدس سٗرہ سے ملتا تھا۔آپ کے خاندان میں علم و فضل شعروادب اور تصوف کا شروع ہی سے چرچا رہا اور آپ کے خاندان میںمشاہیر علم و ادب پیدا ہوتے رہے[2] بعد میں آپ کے والد نے نانپارہ میں سکونیت اختیار کر لی ۔ واصف القادری کو بچپن سے ہی گھر میں دینی علمی ماحول ملا ،جس نے آپ کی ذہن کو روشنی،قلب کو تازگی اور روح کوجلا بخشی ۔ واصف صاحب کی ابتدائی دینی تعلیم حاصل کی اور اس سے پہلے کہ اعلیٰ تعلیم کی طرف رخ کرتے والد کا انتقال ہو گیا واصف القادری کی عمر اس وقت 13 سال کی تھی۔والد کی بے وقت کی جدائی نے بچپن میں ہی فکر معاش سے دو چار کر دیا لیکن بلند حوصلوں سے سر بلند کر لیا ۔بعد میں واصف صاحب نے حکمت کا پیشہ اختیار کیا۔ عوام میں آپ کو حکیم کی حیثیت سے پورے شہر میں مشہور ہو گئے۔لیکن آپ ایک اچھے شاعر کے طور پر بھی مشہور تھے ۔
ا دبی خدمات
واصف ؔالقادری صاحب نے ابتدائے شاعری میں اصغر رشیدی نانپاروی تلمذہ پیارے صاحب رشیدؔ لکھنؤی[3] سےمشورہ شخن حاصل کیا بعد میں مذہبی شاعری کی شاعری کی طرف رجحان ہوا اور مشق سے کلام میں پختگی محسوس کرنے لگے تو سلسلہ ختم کر کے اپنی ذاتی صلاحیتوں کو رہنما بنا لیا۔واصف القادری کے بارے میں بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ آپ صوفیانہ رنگ میں شعر کہتے تھے۔ واصف االقادری نے نعت کے ،غزل ،رباعیات ، قظعات اور مثنوی وغیرہ سبھی اصناف میں کلام لکھے ۔ ضلع بہرائچ کے نامور ادیب و شاعر شارقؔ ربانی آپ کے کلام کے بارے میں اپنے مضمون میں لکھتے ہے کہ واصف القادری کے کلام کا مطالعہ کرنے پر حسن ظن اور مبالغہ سے قطع نظر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ ہر لحاظ سے ایک شاعر تھے۔ان کی شاعری فن کے میعار پر پوری اترتی ہے۔ واصف صاحب کے کلام میں وہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں جو ایک اچھے شاعر کے لئے ضروری ہیں۔ اشعارحسن بیان کا دلکش نمونہ ہیں لیکن وہ مقصد کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔واصف صاحب کے کلام میں فکر و فن کا خوبصورت توازن اور خیال و بیان کا حسین امتزاج ملتا ہے ۔مگر افسوس کہ واصف القادری صاحب نے اپنی تمام عمر گوشہ گمنامی میں گزری ۔واصف صاحب نہ تو محفل شعروشخن کے حقیقی چراغ بنے اور نہ ہی کبھی انکی شہرت کا ستارہ چمکا ۔ واصف صاحب ایک شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان ، مایاناز استاد،خلوص کے پیکر ، ہمدردی کا مجسمہ ،محبت کا دریا اور انسانیت کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ان کی شخصیت دل نوازی وپاکیزگی ان کی شاعری میں بھی اتر آتی تھی۔نعتیہ اشعار میں حضورﷺ سے والہانہ عشق کی جھلک ملتی ہے۔ آپ کے 3 شعری مجموعہ شائع ہوئے 1.مجاز حقیقت 2.تجلیات حرم 3. عزم وایثار خیرآباد کے مشہور شاعر نجم خیرآبادی آپ کے حقیقی بہنوئی تھے۔نیر خیرآبادی،ریاض خیرآبادی، مضطر خیرآبادی،بسمل خیرآبادی وغیرہ آپ کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔
ادبی شخصیات سے رابطہ
خیرآباد کے مشہور شاعر نجمؔ خیرآبادی آپ کے حقیقی بہنوئی تھے۔نیرؔخیرآبادی،ریاضؔ خیرآبادی، مضطر ؔخیرآبادی،بسملؔ خیرآبادی وغیرہ آپ کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ نانپارہ کے شاعر شارقؔ ربانی کے والد ٹھاکر عبدالرب صاحب آپ کے دوست تھے ۔ شفیع بہرائچی محمد نعیم اللہ خیالی وصفی بہرائچی عبرت بہرائچی ،جمال بابا، ایمن چغتائی نانپاروی وغیرہ سے آپ کا گہرا رابطہ تھا۔ قمر گونڈوی اور نیپال کے مشہور شاعر جناب حاجی عبدالطیف شوقؔ نیپالی آپ کے شاگرد ہیں۔ آپ کے بہت سے شاگرد ملک نیپال اور نانپارہ میں ہیں۔
وفات
عبدالوارث مشہود علی تخلص واصف ؔ القادری کی وفات 4 نومبر 1984ء کو نانپارہ میں ہوئی۔ آپ کی تدفن نانپارہ میں ہی ہوئی۔
نمونہ کلام
نبی کی محبت میں کیا کیا بنوں گا | تماشائی بن کر تماشا بنوں گا | |
مجھے بھی لے جا مدینے کے راہی | تری خاک نقش کفِ پا بنوں گا | |
کبھی جذب کر لیں گی امواج رحمت | کبھی بڑھ کے قطرہ سے دریا بنوں گا | |
کبھی وقف نظارہ ہوں گی نگاہیں | کبھی بے نیاز تمنا بنوں گا | |
مدینے کے ذروں کو حاصل بنا کر | درخشاں درخشاں ستارہ بنوں گا | |
تجھے خار طیبہ میں آنکھوں میں رکھ کر | بہار گل دین و دنیا بنوں گا | |
اگر بن سکا تو بہ قید محبت | محمد کے غم کا فسانا بنوں گا | |
کبھی سامنے ہوں گے انوار احمد | میں واصفؔ کبھی رشک موسیٰ بنوں گا |
حوالہ جات
- . عزم وایثار از واصف القادری
- ریختہ پر عرفان عباسی کی کتاب
ڈاکٹر محمد نعیم اللہ خیالیؔ
ڈاکٹر محمد نعیم اللہ خیالیؔ کی پیدائش 15 اپر یل 1920ء میں شہر بہرائچ کے محلہ قاضی پورہ میں خان عبداللہ کے یہاں ہوئی ۔آپ کے والد محترم شہر کے زمینداروں اور مجاہد آزادی کے صفِ اوّل کے رہنماؤں میں تھے ۔آپ کے گھر میں دینی ماحول تھا ،آٓپ کے والد حضرت شاہ فضل الرحمٰن گنج مُرادآبادیؒ سے بیعت تھے ۔ڈاکڑ خیالی ؔ بعمر ۱۶ سال 1936ء میں شوقیہ طور پر ایک بزرگ حضرت سید مرحوم شاہ پیشاوری ؒ سے سلسلہ قادریہ مجدّدیہ میں بیعت ہو گئے،کتب درسیہ میں خلاصہ کیدانی اور قدوری کا درس بھی ان سے حاصل کیا ۔1938ء میں میں آپ کے شیخ پیشاور میں رحلت کر گئے۔اگلے سال1939ء میں ابتدائی عربی و فارسی ادب و طب یونانی کے اُستاد حکیم صاحب بھی انتقال فرما گئے ،جنکا آپ پر گہرا اثر تھا،جس سے آپ محروم ہو گئے ۔اگست 1940ء میں والد محترم کا بھی انتقال ہو گیا اس طرح لگاتار ۳۳ سالوں میں روہانی،علمی اور جسمانی سر پرتوں کا سایئہ شفقت سےمحروم ہو گئے ۔خیالی صاحب اسکولوں کالجوں کی زندگی سےمحروم رہے لیکن علم و ذکاء اورعقل و ادراک کے خالق نے آپ کو وہ استعداد،اہلیت اور عرفان و شعور عطا کیا جس کی بدولت خیالی صاحب روایتی مدرسوں اور رسمی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں قدم رکھے بغیر ہائی اسکول سے لیکر ایم۔اے۔تک سارے مدارج و مراحل پرائیوٹ امیدوار کی حشیت سے طے کئے ان کے علاوہ منشی کامل ،دبیر کامل ،فاضل طب وغیرہ کے امتحانات بھی نمایاں پوزیشن سے پاس کئے ۔
ا دبی خدمات
خیالی صاحب کوعربی ،فارسی،ہندی،اردو،تامل،تیلگو،بنگلہ کے علاوہروسی ،فرنچ،جرمن،انگریزی ، چینی،ترکی اور لاطینی زبانوں میں بھی کافی عبور تھا۔
لسانیات کے علاوہ ایلوپیتھی،طب یونانی،آیورویدک طریقہ علاج میں عملی طور پر زبردست مہارت تھی ،لیکن آپ نے علمی اور ادبی ذوق کی پرورش اور تعلیم و تدریس کے جذبات کے پیش نظر پیشۂ معلمی کا انتخاب کیا اور 1956ء سے 1980ء تک آزاد کالج بہرائچمیں اردو اورعربی کا درس دیتے رہے ۔ آخر میں کچھ وقت کے لئے کسان ڈگری کالج میں بحیسیت پروفیسر اردو تقرر ہو گیا۔سبکدوش ہونے کے بعد تصنیف و تالیف کے کاموں میں لگ گیے، اور "ادارہ لسانیات " اور " ادارۃ المصنفین" کا قیام کیا ۔ڈاکٹر خیالی صاحب کا ایک تاریخی کام حضرت شاہ ابوالحسن زید فاروقی کی فارسی کتاب "مناہیج السّیر "کا اردو ترجمعہ بنام "مدارج الخیر" کے کیا جو تصوف کی ایک اعٰلی درجہ کی کتاب ہے اور سلسلہنقشبندیہ مجدّدیہ کے راہ سلوک پر مستند کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔خیالی صاحب نے لسانیات میں ایک عظیم کام انجام دیا ہے ۔ آپ نے "اردو کی بین الااقوامی حیثیت" پر کئی کتابے لکھی ہے ۔خیالی صاحب کے ملک اور بیرون ملک کے ادبی و تنقیدی رسائل و جرائد میں تاعمر مضامین اور مقالے شائع ہوتے رہے جن کا کوئی شمار نہیں ۔آپ بہرائچ سے شائع ہونے والے ماہنامہ "چودھویں صدی" کے با نی اور مدیر تھے ۔
سماجی خدمات
لسانیات کے علاوہ ہومیوپیتھی،یونانی،آیورویدک طریقہ علاج میں عملی طور پر زبردست مہارت تھی ،اور اس فن کے ماہر افراد سے استفادہ کرتے رہے اور پورے شہر میں ہومیوپیتھی کے ایک مشہور طبیب ہوئے۔
وفات
31 دسمبر 1991ء کو آپ کا بہرائچ میں انتقال ہوا،اور تدفن احاتہ شاہ نعیم اللہ ؒ (خلیفہ حضرت مرزا مظہر جان جاناں ؒ میں ہوئی ،جس میں شہر کے تمام بہت سے لوگوں نے سرکت کی تھی۔
Dr.Ibrat Bahraichi
Juned Ahmad Noor with Dr.Ibrat Bahraichi |
Dr.Ibrat Bahraichi is senior poet of urdu from our hometown Bahraich.He lives in Nazirpura Bahraich.He served 6 decades in Urdu Adab as poet .His many books are published .
He is also Senior Homeopathic Doctor of Bahraich.
Abdul Aziz Khan”Ibrat Bahraichi” saal wiladat 1927. Zamin Ali Khan Aniq Bahraichi Dr.Ibrat Bahraichi ke par dada the, jo Aness Lucknawi ke shagird the. Dr.Naimullah Khan khayali sb. aur Abdur Rahman Khan Wasfi Bahraichi Janab Ibrat Bahraichi ke chacha the Ibrat Bahraichi Hazrat Nashsoor Wahidi ke shagird hai ab tak 46 kitaabe shaya ho chuki hai Dr. Ibrat sb Hazrat Jigar Muradabadi ke sath barso rahe.Jigar sb se aap ke bahut gahray rishte rahe. Unka qayaam Nazirpura Bahraich main. Wo ek Senior Homeopathic Doctor bhi hain. Mobile No. 09919514561
Dr. Ibrat Bahraichi by Juned Ahmad Noor ©
Dr. Ibrat Bahraichi on His Clinic By Juned Ahmad Noor © |
************
Izhar Warsi
نمونہ کلامممتا سے مہکی مہکی ہوائیں چلی گیئں | بیٹا پکارنے والی صدائیں چلی گیئں | |
بخشے گا کون مر ہم زخم جگر اثرؔ | گھر سے ہمارے ماں کی دعائیں چلی گیئں |
*********
Akmal Nazir An Urdu and English Poet
Akmal Nazir An Urdu and English Poet
Mohammad Akmal Nazir |
Name ⇒Mohammad Akmal Nazir
Father ⇒ Mohammad Nazir Khan
Mother ⇒ .Shahida Begum
Date Of Birth ⇒ 1972
Birth place⇒ Qazipura South Bahraich
Pen name ⇒ Akmal.
Education ⇒ Post Graduate
Occupation ⇒ Teaching.
Mohammed Akmal Nazir was born on 1972 in Mohalla Qazipura South Bahraich.He had his early education in Modern Mission School (now Mornig Star Acadmy ) Bahraich.He passed his high school and intermediate examination from Azad Inter College bahraich.He obtained his graduate and post graduate degrees from Kisan P.G CollegeBahraich,now Thakur Hukum Singh P.G.College Bahraich.
His father Late Mohammad Nazir khan was a well known literary and religious figure of Bahraich . Akmal Nazir started writing Urdu poetry at the young age of 18 years . He studied Ghalib,Maulana Altaf Husain Hali,Alalma Iqbal etc ,and in the most recent time Faiz Ahmad Faiz,influenced his poetry.Though he has no ustad (Teacher)in Urdu poetry,he excels in writing his verses.He has his own style of poetry,he writes on current affairs,he is thought provoking poet but he does not called him self a poet.
He also composed almost 200 poems on various topics in English. One of his poem's a humble complaint is among top five hundred poems of world on PoemHunter . This poem was also selected for the daily project of Overlook Academy of United States of America.
Juned Ahmad Noor With Akmal Nazir |
Akmal Nazir with his Sons and Juned Ahmad Noor |
*Some example of his urdu poetry*
Tum ko hai gar qubool to haazir hai naqd yeh
Hota nahi hai jaan ka sauda udhaar me
,
Kiya jaaniye ki jaan pe dhata hai sitam
Shauq e sukhan wari bhi ghame rozgaar me
-
Rakh ke qadmo me kisi ke woh kulaah e aabru
Gosha e dil me.n chhupaae shauq e sardaari rha .
-
Munjamid tha jinki aankho.n me.n tamannao ka khoo.n
Kis qadar dhundhla wahaa.n par khwaab e bedaari raha
-
Poochhte kya ho hamaare zarf ki 'Akmal'yahaa.n
Sohbat e aghyaar me.n bhi lahja me'yaari raha.
****A Humble Complaint****
You could have been more polite observing me,
Your harsh words have left
An indelible impression,
Hatred can be won by love alone,
As one gets relief from
Scorching heat
By gentle rain,
As the sermon of a saint soothes
The disturbed mind,
Your words could have healed
The wounds of my heart,
For once you touched me, felt me,
And covered your being with my love,
As you said,
You smelt my love and called it red rose,
What's happened now?
Thorns have grown on my lips,
My being has become the grave of your hatred,
Is it a diversion
Or you're posing to be more sensible?
Your harsh words have left
An indelible impression,
Hatred can be won by love alone,
As one gets relief from
Scorching heat
By gentle rain,
As the sermon of a saint soothes
The disturbed mind,
Your words could have healed
The wounds of my heart,
For once you touched me, felt me,
And covered your being with my love,
As you said,
You smelt my love and called it red rose,
What's happened now?
Thorns have grown on my lips,
My being has become the grave of your hatred,
Is it a diversion
Or you're posing to be more sensible?
Comments
Post a Comment