فیروز شاہ تغلق اور درگاہ سید سالا ر مسعود غازی میں سر منڈانے کی حقیقت

 

فیروز شاہ تغلق اور درگاہ سید سالا ر مسعود غازی میں سر منڈانے کی حقیقت

جنید احمد نور

بہرائچ



کل  یعنی ۳۱؍جولائی ۲۰۲۱ء کو میں نے ایک تصویر پوسٹ کی تھی اور سوال کیا تھا کہ یہ جگہ کہاں پر واقع ہے۔جس پر تمام لوگوں نے درست اور غلط  جوابات بھی دے اور کچھ نے نامعلوم ہونے کا جو اب دیا۔اسی میں ایک صاحب نے تصویر کی جگہ تو صحیح بتائی لیکن تاریخ غلط بتائی۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس جگہ کا فیروز شاہی دور سے کوئی تعلق نہیں وہ نوابین اودھ کے دور کی تعمیر ہے۔ اس کے بعد موصوف نے ایک کتاب کا صفحہ شیئر کیا جس میں لکھا تھا بادشاہ تغلق نے بہرائچ درگاہ کا سفر کیا اور خواب دیکھا  جس سے فیروز شاہ تغلق نے اپنا سر منڈایا اور اس کو دیکھ کر امیروں نے بھی سر منڈایا ۔ جو صحیح ہے لیکن    ہم یہاں اس  سر منڈانے کی حقیقی وجہ کا بیان کر رہے جو تاریخی اور فیروز شاہ کے درباری عفیف شمس سراج ، عبد الرحمن چشتی اور پروفیسر خلیق احمد نظامی کی کتابوں سے نقل ہے ۔

        عفیف شمس سراج لکھتے ہیں کہ   مختصر یہ کہ بادشاہ (فیروز شاہ تغلق ) نے ۷۷۲ھ میں بہرائچ کا سفر کا اور شہر میں پہنچ کر بندگی سید سالار مسعود (غازیؒ) کے آستانہ پر حاضر ہو کر فاتحہ خوانی کی سعادت حاصل کی ۔  

زنجیری گیٹ (تصیور جنید احمد نور،2020ء)


        بادشاہ نے بہرائچ میں چند روز قیام کیااور اتفاق سے ایک شب حضرت سید سالار کی زیارت خواب میں نصیب ہوئی۔

        سید سالار نے فیروز شاہ کو دیکھ کر اپنی ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرا یعنی اس امر کا اشارہ کیاکہ اب پیری کا زمانہ آگیاہے بہتر ہے کہ اب آخرت کا سامان کیا جائے اور اپنی ہستی کو یاد رکھا جائے ۔صبح کو بادشاہ نے حلق کیا اور فیروز شاہ کی محبت اور اتباع میں اس روز اکثر خانان و ملو ک نے سر منڈایا۔

        حقیقت یہ ہے کہ محبت و دل بستگی کے آئین بھی عجیب و غریب ہیں

        واضح ہو کہ جس زمانے میں  ہمارے سرور عالمﷺ  خدائے تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق کہ محلقین روعسیم خلق فرمایا تو تمام صحابہ کرام نے پیغمبر خداﷺ کی محبت  و اتباع میں اپنے سر منڈوایے اسی طرح فیروز شاہ کے حلق   کرنے میں تمام امرا نے بھی بادشاہ کی پیروی کی۔(تاریخ فیروز شاہی   ، ص ۲۵۳)

 جبکہ عبد الرحمن چشتی لکھتے ہیں کہ  خواب سے بیدار ہو کر وہ سلطان الشہدا مسعود غازی رحمہ اللہ  کے مزار کے پائنتی بیٹھ گیا اور خرقۂ صوفیہ پہن کر تائب ہوا۔ اس کے بعد بعد دہلی جاکر اپنے لڑکے سلطان محمد کو تخت پر بیٹھایا اور خود طاعت و عبادت میں مشغول ہو گیا۔حتیٰ کہ ۷۹۰ھ میں راہیٔ ملک بقا ہوا۔

درگاہ حضرت سید امیر ماہ بہرائچیؒ (تصویر جنید احمد نور)


یہی وہ سفر تھا جس میں بادشاہ فیروز شاہ  تغلق  کی ملاقات میر سید امیر ماہ بہرائچی رحمہ اللہ سے ہوئی تھی۔جس کا ذکر  خلیق احمد نظامی نے اس طرح کیا ہے کہ میر سید امیر ماہ رحمہ اللہ بہرائچ کے مشہور و معروف مشایخ ِ طریقت میں تھے۔سید علاء الدین  المعروف بہ علی جاوری رحمہ اللہ سے بیعت تھے۔وحدت الوجود کے مختلف مسائل پر رسالہ

 ’’ المطلوب فی عشق المحبوب‘‘ لکھا تھا۔ فیروز شاہ جب بہرائچ آیا تو ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور

                                ’’بسیار صحبت نیک و گرم برُآمد‘‘

فیروز شاہ کے ذہن میں مزار سے متعلق کچھ شہبات بھی تھے جن کو میر سید امیر ماہ نے رفع کیا۔عبد الرحمن چشتی کا

 بیان ہے کہ اس ملاقات کے بعد فیروز شاہ کا دل دنیا کی طرف سے سرد پڑ گیا تھا اوراس نے ’’باقی عمر یاد الہیٰ میں

 کاٹ دی۔‘‘ یہ بیان مبالغہ آمیز ضرور ہے لیکن غلط نہیں ۔بہرائچ کے سفر کے بعد فیروز شاہ پر مذہبیت کا غلبہ ہو گیا تھا۔(سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات ،ص۴۱۴)

بادشاہ فیروز شاہ تغلق بشکریہ ویکی پیڈیا




Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

حضرت سید سالار مسعود غازیؒ

حضرت سید سالار مسعود غازیؒ- جنید احمد نور

Bahraich Great Freedom Fighters (Hindi and English)