جنگ آزادی میں بہرائچ

جنگ آزادی میں بہرائچ

                                                              جنید احمد نور


جنگ آزادی میں بہرائچ

                                                              جنید احمد نور
1857ء کی جنگ آزادی میں بہرائچ کا اہم کردار رہا ہے  ۔بہرائچ کے چہلاری  کے راجہ بلبدھر سنگھ  نے بیگم حضرت محل کی فوج کی کمان سمبھالی تھی ۔اور اسی جنگ میں شہید بھی ہوئے ۔بیگم حضرت محل  کو راجہ چردا               نےاپنے قلعہ میں پناہ دی تھی اور وہیں سے وہ بہرائچ کے راستے سے نیپال کو گئی تھی۔اس کے علاوہ بہرائچ کے کئی حصوں میں آزادی  کے متوالوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج سے جنگیں ہوئیں ۔کچھ دیسی ریاستوں نے جو پہلے آزادی کے سپاہیوں کے ساتھ تھیں۔جنگ میں ہار جانے کے بعد خود سپردگی کر دی  جن میں ریاست  رہوا ،بھنگا اور ٹیپرہ وغیرہ شامل تھے۔ان کے کچھ علاقے ان سے چھین لئے  تھے۔1860ء میں      ریاست نیپال کے ساتھ ہوئے  معاہدہ میں ترائی /تلسی پور کے علاقے کو نیپال کو سونپ دیا گیا تھا۔اسی طرح انگریزوں نے کچھ علاقے راجہ  کپورتھلا اورراجہ بلرام پور کو بھی دئےتھے۔7؍فروری1856ء کو  ریزڈینٹ  جنرل آؤٹرم نے اودھ میں کمپنی راج کے نفاد کا علان کیا اور بہرائچ کو  ڈویژن کا مرکز بنایا  اورمسٹر ونگ فیلڈ کو  کمشنر کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔                                                     لارڈ ڈلہوزی کی ریاست ہڑپنےکی  پالیسی کی وجہ سے دیسی راجہ اور نواب  فرنگی راج کے خلاف تھے۔دہلی میں مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر اور لکھنؤ میں بیگم حضرت محل کے علاوہ کانپور میں نانا صاحب  اور عظیم اللہ انگریزوں کے خلاف میدان میں تھے۔نانا صاحب نے مقامی حکمرانوں سے ملاقات کے لئےبہرائچ آئے اورایک  خفیہ اجلاس  منعقد کیا جس میں  چہلاری ،چردا،بھنگا،بونڈی،ٹپررہ  وغیرہ کے حکمرانوں نے شرکت کی اور یہ عہد کیا  کی  موت تک آزادی کے لئے جدوجہد کی جائے گی۔                                                                                                                    بہرائچ میں اس وقت جنگ بڑے پیمانے پر تھی۔ریکواری کے تمام حکمراں اس وقت عوام کے ساتھ تھے ۔جب  یہ جد وجہد چل رہی تھی اس وقت 3 برٹس آفیسر نانپارہ کی طرف بھاگے لیکن عوام نے انہیں روک لیا اور انہیں واپس ہونا پڑا جہا ں سے وہ لکھنؤ کے لئے چل دئے لیکن جب یہ سب بہرام گھاٹ(گنیش پور)پہنچے تو  اس وقت تمام ناؤ  دیسی عوام کے قبضے میں تھی ۔جہاں ہندستانی عوام سے فرنگی آفیسروں کا مورچا  ہوا جس میں یہ سب آفیسر مارے گئے۔ اور پھر آزادی کے متوالوں نے پورے ضلع کو فرنگی لوگوں سے آزاد کرا لیا تھا اور  1858ء   تک بہرائچ مجاہدین آزادی کے قبضہ میں رہا۔                                                                                                                           بہرائچ سے اتر میں نیپال کی سرحد کے قریب واقع  تلسی پور قلعہ  مجاہدین آزادی کا مضبوط قلعہ  تھا جہاں نانا صاحب  ،انکے بھائی بالا راؤ نے  پناہ  لے رکھی تھی بعد میں   دسمبر 1858 کو برطانوی فوج نے نانپارہ پر  قبضہ  کیا۔ پورے نانپارہ کو لوٹا اور برباد کر دیا گیا تھا۔مجاہدین آزادی   برگادیا کے قلعہ پر فوجیوں کے خلاف ایکجا ہوئے اور  وہاں ایک عظیم جدوجہد ہوئی۔تقریباً     4000  فوجی بھاگ گئے اور مسجیدہ کے بہتّر قلعہ میں پناہ گزین ہو گئے لیکن پھر بھی  برطانوی  فوج نے قلعہ کو تباہ کر دیا اور یہ جنگ دھرمن پور  میں واقع ہوئی. کلائیو نے دوسرے سپاہیوں کو جو دریا ئے راپتی کے کنارے پر رہ رگے تھے انہیں دوسری جانب منتقل کر دیا۔27 دسمبر 1858ء کو برطانوی فوج چردا  کی طرف منتقل ہوگئی اور 2 دن کی جنگ کے بعد برطانوی فوج نے چردا پر قبضہ کر لیا تھا۔29 دسمبر 1858ء کو برطانوی فوج نانپارہ واپس آگئی۔                                                                                                                                                    1920ءمیں یہاں آل انڈیا کانگریس کمیٹی  کی بنیاد ڈالی گئی جب یہاں سے  کچھ لوگوں نے  ناگپور  کنونشن میں شرکت کی تھی۔جب کی اس وقت شہری علاقوں میں ہوم رول  لیگ بہت مقبول تھی لیکن کچھ وقت میں    بابا یوگل بہاری،شیام بہاری پانڈے، خواجہ خلیل احمد شاہ،مولانا محفوظ الرحمن نامیؔ،پنڈت بھگوان دین مشرا،ٹھاکر حکم سنگھ ،مولانا سلامت اللہ   ،مولوی کلیم اللہ نوری وغیرہ اہم تھے۔1926ءمیں سروجنی نائڈو نے بہرائچ کا دورہ کیا  تھا اور لوگوں کو دیسی سامان اور  ایکتا اور کھادی کے سامان کے استعمال پر زور دیا تھا۔          1929ء    میں مہاتما گاندھی بہرائچ آئے اور ایک عوامی اجلاس سے گورنمینٹ انٹر کالج (اب مہاراج سنگھ انٹر کالج)میں خطاب کیا تھا۔اور انہیں بہرائچ کی عوام نے 3500روپئے کا چندہ بھی دیا تھا ہرجنوں کی  فلاح بہبود کے لئے تھا۔ نمک قانون توڑنے   کے کے لئے گاندھی جی نے ڈاندی مارچ کیا تھا جس کے سبب گاندھی جی کو حراست میں لے لیا گیا تھا اس کے احتجاج میں بہرائچ کے مقامی گھنٹہ گھر میں لوگوں نے  نمک بنا کر قانون کو توڑنے کا اعلان کیا تھا ۔تمام اہم رہنماؤں کو گرفتارکرلیا گیا تھا۔                                                                                                                                                            مولانا حکیم حافظ حاجی محمد فاروق نقشبندی مجددی مظہری بہرائچی ؒ  جو مولانا حسرت ؔموہانی اور علی برادران کے ساتھوں میں تھے کی دعوت پر حضرت عنایت اللہ خاں المشرقی بانی خاکسار تحریک بہرائچ تشریف لائے بہرائچ کی تاریخ میں خاکسار تحریک کی سب سے بڑی ریلی ہوئی۔اس ریلی میں مولانا موصوف نے اپنی خطابت کے جوہر دیکھلائے تھے ۔یہ ریلی بہرائچ شہر سے باہر ایک بہت بڑے میدان میں ہوئی تھی جس میں تمام ہندوستان کے خاکسار نے شہر میں بہت بڑا مارچ  نکلا   تھا۔                                                                                                                          6              اکتوبر                                1931 ءکو پنڈت جواہرلعل نہرو نے بہرائچ کا دورہ  کیا اور رامپوروہ،ہردی ، گیلولا،اکونا میں عوامی اجلاس سے خطاب کیا تھا۔ 762 افراد نے گاندھی جی  کے سستیا گرہ  کے لئے اپنے نام دیاتھا جن میں سے 371 کو گرفتار کرلیا گیا  تھا۔جب گاندھی جی کو 9اگست             1942ء بھارت چھوڑوتحریک کے دوران گرفتار کیا گیا تھااس وقت  ضلع میں احتجاجی جلوس کا  انعقاد ہوا جس میں تمام مقامی رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا۔                                                                        شہر بہرائچ   کے مشہور مجاہد آزادی  اور ملی رہنما  خواجہ خلیل احمد شاہ خواجہ صاحب کٹر کانگریسی تھے۔اعلیٰ تعلیم یافتہ نہ تھے لیکن بلا کے ذہین اور روشن دماغ تھے۔خواجہ شاہ  کا ذاتی کتب خانہ تھا جس میں قیمتی اور نادر کتابیں تھیں۔اخبار بینی ،علمی ،ادبی کتابیں پڑھنے کا بیحد شوق رکھتے تھے۔مطالعہ کے لئے کتابیں میز پر موجود  رہتی تھیں۔اخبار کی ضروری  اور کارآمد جزوں کی کٹنگ اپنے پاس رکھتے تھے۔پنڈت جواہر لعل نہرو آپ کی   سیاسی بصیرت  اور حوصلگی کی بڑی قدر کرتے تھے اور مفید مشوروں کو سراہتے تھے۔آپ سالوں درگاہ  حضرت سید سالار مسعود غازیؒ کی  کمیٹی کے ممبر رہے۔         1936ء  میں نگر پالیکا بہرائچ  کے ممبر رہے۔آپ کی  سیاسی بصیرت سے متاثر ہو کر پنڈت نہرو نے انھیں        1936ء  میں  کانگریس سرکار میں ایم۔ایل۔سی کے عہدے پر منتخب کرایا۔فسادوں اور جھگروں میں قابو پالینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ہر قوم آپ کی باتیں مان لیتی تھیں۔ عوام آپ کو قدرکی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔      
1940ءمیں گاندھی جی کی بھارت چھوڑو (سول نافرمانی) تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے مسلمانان بہرائچ واطراف کی نمائندگی کرتے ہوئے جیل جا کر قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں، جس کی وجہ سے درمیان میں تدریسی مشاغل سے انقطاع ہو گیا تھا، پھر جون           1942ء کو باضابطہ تدریس کے لیے انتخاب ہوا اور اس کے بعد تادم حیات تقریباً 49سال مسلسل جامعہ نورالعلوم کے طلبہ کی علمی پیاس بجھاتے رہے۔حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب ؒصاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے اپنے معائنہ میں تحریر فرمایا ہے کہ، ’’مولانا محمد سلامت اللہ صاحب اس نصب العین اور عام تعلیمی امور میں ساعی ہیں، امید ہے کہ ان پاکیزہ عناصر کے ساتھ یہ مدرسہ برابر ترقی کرتا رہے گا۔حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی صاحبؒ نے اپنے معائنہ میں تحریر کیا ہے ’’کہ مولانا محمد سلامت اللہ صاحب جیسے کہنہ مشق استاذ کی خدمات بھی اس کو حاصل ہیں، جو نورالعلوم کی ترقی کے وجوہات میں سے ایک اہم وجہ ہے۔                                                                                                                                                                مولانا کلیم اللہ صاحب نوری                 1940ء میں اپنے اساتذہ ومربیان کے حکم سے تعلیم چھوڑ کر گاندھی جی کی ستیہ گرہ میں شریک ہوئے، ایک سال سے زائد بہرائچ اور گونڈہ کے جیلوں میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ 1942ءمیں اپنے بزرگوں کے حکم پر ’’ملک چھوڑو آندولن تحریک‘‘ میں انڈر گراونڈ رہ کر کارروائی کرتے رہے، بہرائچ میں گورا پلٹن پہنچنے پر اردو زبان میں ’’انگریزی فوج کا بائیکاٹ کرو‘‘ نعرہ دیوار پر لکھوائے اور پمفلٹ تقسیم کرائے، جس پر گرفتاری کا وارنٹ جاری ہوا، لیڈروں کے کہنے سے ملک نیپال چلے گئے، وارنٹ کی واپسی پر بہرائچ واپسی ہوئی، بھگت سنگھ کی انقلابی پارٹی کے ممبر رہے، ایمرجنسی کے زمانے میں بھی سیاسی وملی اسباب کی بنا پر میسا کے تحت گرفتار ہو کر رمضان المبارک میں جیل کی سختیاں برداشت کیں،                      1941ءسے آزادی وطن تک مسلسل مجاہدانہ کارنامے انجام دیتے رہے، جس کے نتیجے میں وزیر اعظم اندرا گاندھی کی دور وزارت میں ’’مجاہد آزادی‘‘ کے لقب سے سرفراز ہوئے، اور تاحیات مرکزو ریاست دونوں جگہوں سے معقول مقدار میں سرکاری پنشن ودیگر رعایتوں اور سہولتوں سے مستفید ہوتے رہے۔                                                                                                     1946ءمیں ہوئے اسمبلی  الیکشن میں جو آزادی سے پہلے ہوا تھا اس میں بہرائچ سے جمعتہ علماء ہند اور کانگریس پارٹی کے مشترکہ امیدوار کی حیثیت سے جامعہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ کے بانی حضرت مولانا محفوظ الرحمٰن نامیؔ  نے مسلم لیگ کے امیدوار  ظہیرالدین فاروقی ایڈوکیٹ کو    شکست کیا  اور ریاستی حکومت میں  وزارت تعلیم میں   پارلیمنٹری سکریٹری کے عہدے پر فائز ہوئے تھےاور                         1951ء تک اسمبلی کے رکن رہے ۔                                15 اگست1947ء  کو جب ملک کو آزادی نصیب ہوئی تو پورے ضلع بہرائچ میں جشن منایا گیا تھا ۔15 اگست1947ء   لکھنؤ میں  سب سے بڑا فنکشن سکریڑیٹ پر منعقد ہوا تھا۔سکریڑیٹ (ودھان بھون) کے سامنے بڑے شامیانے لگائے گئے تھے اور یہاں اہم شخصیتیں اور آزادی کے پروانے بڑی تعداد میں موجود تھےاس پروگرام میں بہرائچ کی   نمائندگی تین اہم لوگوں نےکی تھی جن کے نام اس طرح ہیں۔مولانا محفوظ الرحمٰن نامیؔ (سابق پارلیمنٹری سکریٹری برائے تعلیم حکومت اتر پردیش اور بانی جامعہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ)،سردار جوگندر سنگھ(سابق گورنر راجستھان)  اور ٹھاکر حکم سنگھ(سابق وزیر اتر پردیش حکومت)۔



Comments

Popular posts from this blog

حضرت سید سالار مسعود غازیؒ

حضرت سید سالار مسعود غازیؒ- جنید احمد نور

Bahraich Great Freedom Fighters (Hindi and English)