Posts

Showing posts from 2019

بہرائچ کے اولین اردو شاعر شاہ نعیم اللہ بہرائچی خلیفہ حضرت مرزا مظہر جان جاناں شہیدؒ

Image
بہرائچ اور اردو ادب از : جنید احمد نور بہرائچ بتاریخ ۲۰/ستمبر ۲۰۱۹ء عجب فیض و تاثیر صحبت میں ہے  جو ہر سو وہاں غرق نسبت میں ہے تو کر شکر  حق کا نعیم ؔ اللہ  ملا مرشد پاک مظہر سا شاہ شاه نعیم ؔ اللہ  بهرائچی حضرت مرزا مظہر جان جاناں شہیدؒ بہرائچ میں اردو ادب کی تاریخ تقریباً ۲۰۰ سال قدیم ہیں ۔تحقیق کے مطابق شاہ نعیم اللہ صاحب بہرائچی ؒ  کو بہرائچ کا پہلا اردو شاعر ہونے کا شرف حاصل ہیں ۔شاہ نعیم اللہ صاحب کا کلام آج بھی  آپ کے خانوادے کے پاس محفوظ ہے۔ شاہ نعیم اللہ صاحب کے استاد مشہور صوفی بزرگ اور ارو ادب کے عظیم شاعر حضرت مرزا مظہر جان جاناں  شہید ؒ تھے۔ سید ظفر احسن بہرائچی صاحب لکھتے ہیں :   خانقاہ حضرت مرزا مظہر  جان جاناں ؒ میں جہاں ایک  طرف متصوّفانہ تعلیم وتربیت کا سلسلسہ جاری تھا ،وہیں دوسری طرف شعر وشاعری کے بھی چرچے ہوا کرتے تھے۔اس شغل میں قاضی ثنا ءاللہ پانی پتی،شاہ نعیم اللہ بہرائچی،شاہ غلام علی دہلوی ،مولوی  ثنا ءاللہ سنبھلی ۔مولوی غلام یحیٰ بہاری ،انعام اللہ خاں یقینؔ،خواجہ احسن اللہ بیانؔ محمد فقیہ دردمندؔ  ہیبت اللہ خاں قلی حسرتؔ پیش و

جنگ آزادی میں بہرائچ

Image
جنگ آزادی میں بہرائچ                                                               جنید احمد نور جنگ آزادی میں بہرائچ                                                               جنید احمد نور 1857 ء کی جنگ آزادی میں بہرائچ کا اہم کردار رہا ہے   ۔بہرائچ کے چہلاری   کے راجہ بلبدھر سنگھ   نے بیگم حضرت محل کی فوج کی کمان سمبھالی تھی ۔اور اسی جنگ میں شہید بھی ہوئے ۔بیگم حضرت محل   کو راجہ چردا                نےاپنے قلعہ میں پناہ دی تھی اور وہیں سے وہ بہرائچ کے راستے سے نیپال کو گئی تھی۔اس کے علاوہ بہرائچ کے کئی حصوں میں آزادی   کے متوالوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج سے جنگیں ہوئیں ۔کچھ دیسی ریاستوں نے جو پہلے آزادی کے سپاہیوں کے ساتھ تھیں۔جنگ میں ہار جانے کے بعد خود سپردگی کر دی   جن میں ریاست   رہوا ،بھنگا اور ٹیپرہ وغیرہ شامل تھے۔ان کے کچھ علاقے ان سے چھین لئے   تھے۔ 1860 ء میں        ریاست نیپال کے ساتھ ہوئے   معاہدہ میں ترائی /تلسی پور کے علاقے کو نیپال کو سونپ دیا گیا تھا۔اسی طرح انگریزوں نے کچھ علاقے راجہ   کپورتھلا اورراجہ بلرام پور کو بھی دئےتھے۔7؍فروری1856ء کو

شیخ فیروزشہید بہرائچی ؒ جد امجدشیخ عبد الحق محدث دہلویؒ शैख़ फ़िरोज़ शहीद (रह.)जद अमजद शैख़ अब्दुल हक़ मुहद्दिस देहलवी (रह.)

Image
  मज़ार शैख़ फ़िरोज़ शहीद (रह.) مزار شہخ فیروز شہید بہرائچیؒ  شیخ فیروز شہیدؒ مصنف اخبار اخیار شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ کے پر دادا تھے۔ آپ کا مزار بہرائچ میں ہے۔ ’’اخبار اخیار‘‘ میں شیخ عبد الحق محدث دہلو یؒ نے اپنے خاندان کے حالات شیخ فیروز شہیدؒ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:   ملک موسیٰ کے کئی لڑکے تھے جن میں ایک کا نام شیخ فیروز تھا۔ شیخ فیروز میرے دادا کے حقیقی دادا تھے۔شیخ فیروز تمام فضائل ظاہری و باطنی سے موصوف تھے۔ اور دینی وکسبی نعمتوں سے مالامال  تھے۔ فن جنگ میں اپنی مثال نہ رکھتے تھے۔ جنگی ترکیبوں میں اپنی قوت طبع اور سلیقہ کے لیے بے نظیر تھے۔ علم شاعری ،دلیری ،سخاوت ظرافت ،لطافت،عشق ومحبت اور دیگر صفات حمیدہ میں یکتائے روزگار تھے۔نیز دولت و حشمت،عزت وعظمت میں شہرۂ آفاق تھے۔ ہمارے گھر میں شریں کلامی ،ذوق و ظرافت آپ ہی کی وجہ سے پیدا ہوا ۔ آپ سلطان بہلول کے دور حکومت کے ابتدائی زمانہ میں بقید حیات تھے۔آپ نے سلطان حسین شرقی کی آمد اور سلطان بہلول سے جنگ کا قصہ نظم کیا تھا۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی آگے لکھتے ہیں کہ یہ کلام ہمارے پاس تھا لیکن اس وقت نہیں ہے البتہ اس کے

محسن زیدی ایک نظر(یوم پیدائش پرخراج عقیدت)

Image
محسن زیدی ایک نظر(یوم پیدائش پرخراج عقیدت) از: جنید احمد نور بہرائچ سید  محسنؔ رضا زیدی ساغر مہدی بہرائچی کے ساتھ عقب میں شیعہ جامع مسجد سیدواڑہ بہرائچ تصویر بشکریہ جناب سید ارشد رضا زیدی ابن سید محسن رضا زیدی  سید محسنؔ رضا زیدی (1935ء - 2003ء) ایک اردو شاعرتھے جو قلمی نام 'محسن' لکھا کرتے تھے۔ سید محسن رضا زیدی 10 جولائی 1935 شہر بہرائچ میں پیدا ہوئے۔ والدین کا نام علی الترتیب سید علی رضا زیدی اور صغری بیگم تھا۔ ان کا 3 ستمبر 2003ء کو لکھنؤ میں انتقال ہوا ۔ محسن زیدی نے پرتاپ گڑھ، اتر پردیش میں ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی - اسلامیہ اسکول (1940ء - 1942ء)؛ کے .پی۔ ہندو ہائی اسکول (1943ء - 1948ء)؛ گورنمنٹ ہائی اسکول (1949 - 1950). انہوں نے کہا کہ مہاراج سنگھ انٹر کالج، بہرائچ، اترپردیش (- 1952 1951) سے ان کی ایران اسکول نے کیا۔ انہوں نے انگریزی ادب، تاریخ اور معاشیات (- 1954 1953) میں لکھنؤ یونیورسٹی سے آرٹس بیچلر موصول ہوئی۔ انہوں نے الہ آباد یونیورسٹی (1955 - 1956) سے معاشیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔1956 ء میں بھارتی اقتصادی سروس میں شمولیت اختیار کی اور 1993

Bahraich Loksabha constituency History

بہرائچ لوک سبھا کی سیاسی تاریخ बहराइच लोकसभा की सियासी तारीख़ 1951ء-1952ء میں آزادی کے بعد پہلے عام انتخابات ہوئے جس میں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات ایک ساتھ ہوئے تھے۔ 1951ई.-1952ई.में आज़ादी के बाद पहले आम चुनाव हुए जिसमें लोकसभा और विधानसभा के चुनाव एक साथ हुए थे। 1951ءکے پہلے پارلیمنٹ انتخاب میں صدر سیٹ سے مشہور مجاہد آزادی رفیع احمد قدوائی نے فتح حاصل کی تھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو  نے حکومت میں خوراک و زراعت کی پورٹ فولیو قدوائی صاحب  کے سپرد کی۔ 1951ई. के पहले संसदीय चुनाव में बहराइच सदर सीट से प्रसिद्ध स्वतंत्रता सेनानी रफ़ी अहमद क़िदवई ने कांग्रेस के टिकट पर बहराइच लोकसभा सीट से चुनाव जीता और पंडित जवाहरलाल नेहरू ने अपनी कैबिनेट में कैबिनेट मंत्री बनाया और खाद्य और कृषि मंत्रालय का कार्यभार दिया था । اسی طرح 1957ء میں ہوئے انتخاب میں سردار جوگندر سنگھ نے بہرائچ  پارلیمنٹ حلقہ سے کامیابی حاصل  کی۔بعد میں سردار جوگیندر سنگھ1971ءسے1972ءتک اڈیسہ اور یکم جولائی 1972ء سے14فروری 1977ء تک راجستھان کے گورنر                 رہے۔ 1957 ई.में हुए दूसरे लोकसभा चुनाव में स

حضرت سید سالار مسعود غازیؒ

Image
حضرت سید سالار مسعود غازیؒ جنید احمد نور مزار مبارک حضرت سید سالار مسعود غازیؒ نعل دروازہ درگاہ شریف بہرائچ بہرائچ کی  تاریخ میں کیا اہمیت ہے ،یہ مولانا سید  ابو الحسن علی ندوی ؒ سابق صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ؍ سابق ناظم ندوۃ العلما  ٫      لکھنؤ کے ان الفاظ سے سمجھی جا سکتی ہیں جو انہوں نے۱۷اور۱۸؍  اپریل ٫۱۹۸۲؁ میں منعقد ہوئی پانچویں  صوبائی  دینی تعلیمی کانفرنس بہرائچ   میں خطبئہ صدارت میں کہی  تھیں۔  جو یہاں نقل ہے۔ ’’انسانی فیصلہ کی طاقت  اور کرامت کی ایسی مثالیں ہیں ،جن کا باور کرنا مشکل ہے،اس کی ایک شہادت آپ کا شہر(بہرائچ) پیش کرتا ہے کہ خدا کا ایک بندہ(سید سالار مسعود غازیؒ)غزنی افغانستان سے رفقا٫ کی ایک چھوٹی سی جماعت کے ساتھ اس ملک میں جو ایک تحتی برا عظم ہے،داخل ہوتا ہے،وہ توحید کا پیغام پہنچانے اور انسانوں کو انسانیت کا سبق سکھانے کے لئے سر ہتھیلی پر رکھ کر آئے ،عقل کا فیصلہ صریحاً اس کے خلاف تھا،کوئی  آدمی صحیح الحواس ہونے کے ساتھ اس کی ہمت نہیں کر سکتا تھا کہ اتنے لمبے چوڑے ملک میں ساتھیو ں کی اتنی تھوڑی تعداد کے ساتھ قدم رکھے اور یہ اس

میاں عنایت علی شاہ سہروردی ملتانی بہرائچی

Image
Tomb Miyan Inayat Ali Shah Soharvardi Multani Bahraichi Takia Kalan Bahraich میاں عنایت علی شاہ سہروردی ملتانی بہرائچی رحم اللہ بہرائچ کی قدیم خانقاہوں میں سے ایک خانقاہ بڑی تکیہ کی بنیاد حضرت میاں عنایت علی شاہ سہروردی ملتانی بہرائچی رحم اللہ نے آج سے تقریباً ساڑھے چار سو سال پہلے شہر بہرائچ میں رکھی تھی۔ میاں عنایت علی شاہ ملتان سے  بہرائچ آئے تھے۔آپ کا تعلق مشہور بزرگ حضرت شیخ حبیب ملتانی رحم اللہ کی درگاہ سے تھا ۔آپ بہرائچ حضرت سید سالار مسعود غازی رحم اللہ کی زیارت کرنے کے لیے بہرائچ تشریف لائے تھے۔ ایک بشارت کےبعد آپ نے یہاں اپنی خانقاہ قائم کی تھی۔اس خانقاہ میں ایک  اور بزرگ ہوئے جن کا نام عظیم اللہ شاہ تھا۔عظیم اللہ شاہ درگاہ حضرت سید سالار مسعود غازی رحم اللہ کے کنجی بردار تھے۔میلہ کے موقع پر تمام فقراء و درویشوں کی جماعتیں یہاں قیام کرتی تھیں۔  مقبرہ میاں غلام علی شاہ بہرائچیؒ خلیفہ و جانشین میاں عنایت علی شاہؒ  بیٹھکا میاں عنایت علی شاہ ملتانی سہروردیؒ بانی خانقاہ تکیہ کلاں بہرائچ حضرت میاں عنایت علی شاہ سہروردی ملتانی بہرائچی کے ایک خلیفہ حض