سید بڈھن بہرائچی سلسلہ نقشبندیہ کے مشہور بزرگ

سید بڈھن بہرائچی کی مزار

سید بڈھن بہرائچی کی پیدائش شہر بہرائچ کے محلہ بڑی ہاٹ میں ماہ رمضان میں ہوئی تھی۔ولادت کے وقت آپ کے سر کے تمام بال سفید تھے اس 
لئے  آپ کا نام بڈھنپڑگیا تھا۔آپ کے والد کا نام مخدوم سید اللہ داد تھا۔
حالات
سید بڈھن بہرائچی کا خاندان ساتویں صدی ہجری میں ہلاکو خاں کے پر فتن زمانہ سے پناہ حاصل کرنے کے لئے بغداد سے ہندستان آیا تھا اور علاقہ ادوھ کے بہرائچ میں اقامت اختیار کی اور بہرائچ میں ایک محلہ آباد مخدوم پورہ کے نام سے آباد کیا جو موجودہ وقت میں بڑی ہاٹ کے نام سے مشہور ہے۔
سید ظفر احسن بہرائچی اپنے والد مولانا سید شاہ اعزازالحسن نقشبندی مجددی (سجادہنشین خانقاہ نعیمیہ بہرائچ سے نقل کرتے ہے کہ

قدیم زمانے میں بہرائچ میں دو مرتبہ ّآتش زنی ہوئی چوں کہ اس وقت بہرائچ کی ساری آبادی پھوس کے مکانات پر مشتمل تھی اس لئے سارا شہر جل گیا اور کوئی بھی اپنا سامان بچا نہ سکا اسی آگ میں میرا مکان بھی جل گیا اور میرے گھر کا اثاثہ قیمتی نوادرات اور کتابیں وغیرہ سب ضائع ہو گئیں اسی میں مخدوم سید بڈھن بہرائچی کے خاندانی حالات وغیرہ بھی تھے ۔اب صرف آپ کی تاریخ وفات اور سلسلہ نسب کے کچھ بزرگوں کے نام معلوم رہ سکے۔
شہری زمینداری بہت تھی۔کچھ دیہات مثلاً ڈیہا ،بخشی پورہ ،امام گنج وغیرہ آپ کے خاندان کے باقی تھے انگریزی دور حکومت میں وہ بھی جاتے رہے ۔شہر بہرائچ کا موجودہ بہرائچ ریلوے اسٹیشن آپ ہی کی زمین پر بنا ہے۔
سلاسل اربعہ
سید بڈھن بہرائچی کے مقبرے کا ایک دلکش منظر

سید بڈھن بہرائچی نے شیخ عبدالمقتدر بن رکن الدین شریحٰی کے واحد شاگرد مخدوم شیخ حسام الدین فتح پوری سے حاصل کی تھی اور ان ہی سے سلسلہ چشتیہ کی اجازت پائی تھی۔مخدوم شیخ حسام الدین فتح پوری کی وفات کے بعد آپ سید اجمل شاہ بہرائچی کی خدمت میں پہنچے اور ان سے مکمل باطنی تعلیم حاصل کر کے ان کے جلیل القدر خلیفہ ہوئے۔ مولانا سید عبدالحئی حسنی نے اپنی کتاب الإعلام بمن في تاريخ الہند من الأعلام ( نزهتہ الخواطر وبهجتہ المسامع والنواظر) میں لکھتے ہے کہ اردو ترجمہ

اشیخ الصالح الفقیہ السید بڈھن البہرائچی کا شمار مشہور و معروف مشائخ کرام میں ہو تا تھا۔آپ نے علوم ظاہری کی تعلیم اور سلسلہ چشتیہ کی اجازت شیخ حسام الدین فتح پوری سے حاصل کی جو شیخ عبدالمقتدر بن رکن الدین شریحی کے شاگرد ت اور فیض یافتہ تھے۔سید بڈھن بہرائچی نے سلسلہ مداریہ و سہروردیہ اور دیگر مشہور سلاسل کی اجازت وخلافت سید اجمل شاہ بہرائچی سے حاصل کی اور ان سے شیخ (درویش) محمد بن قاسم اودھی نے اجازت اور خلافت حاصل کی۔
سید بڈھن شاہ بہرائچی'قاضی سید عبدالمالک المعروف سید اجمل شاہ بہرائچی کے خلیفہ تھے۔آپ کو بے شمار سلاسل سے نسبت حاصل تھی۔سلسلہ نظامیہ میں آپ خلیفہ تھے سید اجمل شاہ بہرائچی وہ خلیفہ تھےمخدوم جہانیاں جہاں گشت کے اور وہ خلیفہ تھے نصیرالدین چراغ دہلی کے۔ سلسلہ کبیریہ میں آپ خلیفہ تھے سید اجمل شاہ بہرائچی وہ خلیفہ تھے مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے وہ خلیفہ تھے شیخ شمس الدین ابومحمد کے وہ خلیفہ تھے شیخ قطب الخالدی کےوہ خلیفہ تھے شیخ احمد کےوہ خلیفہ تھے بابا بامجند کے وہ خلیفہ تھے شیخ نجم الدین کبیر کے۔ سلسلہ سہروردیہ میں آپ خلیفہ تھے سید اجمل شاہ بہرائچی وہ خلیفہ تھےمخدوم جہانیاں جہاں گشت کے وہ خلیفہ تھےشیخ رکن الدین ملتانی کے وہ خلیفہ تھے شیخ صدرالدین ملتانی کےاور وہ خلیفہ تھے بہاؤالدین زکریا ملتانی کے۔سلسلہ مداریہ میں آپ خلیفہ تھے سید اجمل شاہ بہرائچی وہ خلیفہ تھے بدیع الدین شاہ مدار کے۔ سلسلہ قادریہ میں آپ خلیفہ تھے سید اجمل شاہ بہرائچی وہ خلیفہ تھے سید مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے وہ خلیفہ تھے شیخ محمد عیسیٰ کےوہ خلیفہ تھے شیخ ابوالمکارم فاضل کے وہ خلیفہ تھے قطب الدین وہ خلیفہ تھے شمس الدین ثانی کے وہ خلیفہ تھے شمس الدین علی حداد کے وہ خلیفہ تھے سید عبدالقادرجیلانی کے۔ اسی طرح سلسلہ نقشبندیہ میں آپ خلیفہ تھے حضرت سید اجمل شاہ بہرائچی وہ خلیفہ تھے شاہ عبدالحق کے وہ خلیفہ تھے خواجہ یعقوب چرخی کے اور وہ خلیفہ تھے خواجہ بہاؤالدین نقشبندی کے۔
خلفاء
سید بڈھن بہرائچی کے خلفاء آپ کے فرزند اکبر سید شاہ فتح چشتی آپ کے خلیفہ اور جانشین ہوئے اور دوسرے شیخ درویش محمد اودھی بن شیخ قاسم اودھی بہت مشہور ہوئے۔ شیخ درویش محمد اودھی(متوفی 896ھ) کے خلیفہ شیخ عبد القدوس گنگوہی (متوفی 944ھ) ان کے خلیفہ شیخ رکن الدین گنگوہی (متوفی 983ھ) ان کے خلیفہ مخدوم عبد الاحد سرہندی (متوفی 1007ھ) ان کے خلیفہ حضرت مجدد الف ثانی (متوفی 1034ھ)۔
اولاد
آئینہ اودھ کے مصنف مولوی ابوالحسن مانکپوری اپنی ملازمت کے دوران 1875ء میں بہرائچ آئے اور مخدوم سید بڈھن بہرائچی کی اولادوں سے ملے تھے۔مصنف آئینہ اودھ سید بڈھن بہرائچی کے حالات میں آپ کی اولاد کا ذکر اس طرح کیا ہے۔
ان مخدوم سید بڈھن بہرائچی کی اولاد میں مولوی سید ابوالحسن بہرائچی نواسئہ شاہ نعیم اللہ بہرائچی خلف الرشیدمولوی شاہ بشارت اللہ بہرائچی صاحب ہیں۔ مولانا سیدنا مخدوم سید بڈھن ؒ کے طہارتِ نسب میں کوئی شق نہیں،مگرعلی الاتصال شجرہ پدری مؤلف کو نہ ملا اس باعث سے اس کے لکھنے میں معذوری ہوئی،اور کچھ چکوک و دیہات معافی کے اس خاندان میں تھے۔عمل داری سرکار انگلیشیہ میں اثر قانونی سے ایک تعلقہ دار کے قبضہ مٰیں جاتے رہے۔اب محض توکل پر بسر اوقات ہے۔
وفات
سید بڈھن بہرائچی کی وفات 17 رجب 880 مطابق 17 نومبر 1475ء میں سلطان بہلول لودی کے زمانے میں ہوئی تھی۔ آپ کا مزار شہر بہرائچ میں بہرائچ ریلوے اسٹیشن روڈ پر پورب جانب ایک بلند ٹیلہ پر واقع ہے۔
حوالہ جات
  نزهتہ الخواطر وبهجتہ المسامع والنواظر ازمولانا حکیم سید عبدالحئی حسنی 
  آئینہ اودھ  مصنف مولوی ابوالحسن مانکپوری
آثار حضرت مرزا مظہر جان جاناں شہیدؒ ازمرتب سید ظفر احسن بہرائچی مطبوعہ2015



Comments

  1. بڈھن بہرائچی سلسلہ مداریہ کے
    مشہور خلیفہ ہیں مزید دیکھیں اس ویب سائٹ پر
    www.qutbulmadar.org

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

حضرت سید سالار مسعود غازیؒ

حضرت سید سالار مسعود غازیؒ- جنید احمد نور

Bahraich Great Freedom Fighters (Hindi and English)