کیفی اعظمی اور بہرائچ

Kaifi Azmi in Mushairah 1986 Bahraich

 مشہور شاعر کیفی ؔ اعظمی  صاحب کی ولادت 14 جنوری 1919 ء کو ضلع اعظم گڑھ میں ہوئی تھی۔ کیفی صاحب  کا ہمارے تاریخی شہر  بہرائچ سے گہرا تعلق تھا۔آپ کے  بچپن کے دن بھی بہرائچ میں گزرے ہیں۔ کیفی ؔ صاحب کے والد صاحب نواب گنج علی آباد ضلع بہرائچ کے نواب قزلباش کے یہاں ملازمت کرتے تھے اور شہر بہرائچ کے محلہ سید واڑہ قاضی پورہ میں رہتے تھے۔کیفیؔ صاحب نے اپنی پہلی غزل  بہرائچ میں ہی پڑھی تھی۔جیسا کہ کیفی ؔصاحب خود اپنے مجموعہ کلام ’’سرمایہ‘‘ میں لکھتے ہیں   :

واقعہ  یہ ہے کہ ابّا بہرائچ میں تھے۔نواب قزلباش اسٹیٹ(تعلقہ نواب گنج علی آباد بہرائچ)  کے مختار عام یا پتہ نہیں کیا وہا ں  ایک مشاعرہ منعقد ہوا اس وقت زیادہ تر مشاعرے طرحی ہوا کرتے تھے اسی طرح کا ایک مشاعرہ تھا۔بھائی صاحبان لکھنؤسے آئے تھے۔بہرائچ ،گونڈہ،نانپارہ اور قریب دور کے بہت سے شعراء مدعو تھے۔مشاعرے کے صدر مانی                     ؔجائسی صاحب تھے ان کے شعر سننےکا ایک خاص طریقہ تھا کہ وہ شعر سننے کے لئے اپنی جگہ پر اکڑوں بیٹھ جاتے اور اپنا سر اپنے دونوں گھٹنوں سے دبا  لیتے اور جھوم جھوم کے شعر سنتے اور داد دیتے ۔اس وقت شعرا ء حسب مراتب بٹھائے جاتے  ایک  چھوٹی سی چوکی پر قیمتی قالین بچھا ہوتا اور گاؤ تکیہ لگا ہوا ہوتا صدر اسی چوکی پر گاؤ تکیے کے سہارے بیٹھتا تھا جس شاعر کی باری آتی وہ اسی چوکی پر آکے ایک طرف نہایت ادب سے دو زانو  ہوکے بیٹھتا ،مجھے موقع ملا تو میں بھی اسی طرح ادب سے چوکی پر ایک کونے میں دو   زانو بیٹھ کے اپنی غزل جو طرح میں تھی سنانے لگا طرح تھی مہرباں ہوتا رازداں  ہوتا وغیرہ میں نے ایک شعر پڑھا۔
وہ سب کی سن رہے ہیں سب کو دادِ شوق دیتے ہیں
کہیں ایسےمیں میرا قصئہ غم بھی بیاں ہوتا
مانی ؔ صاحب کو نہ جانے شعر اتنا کیوں پسند آیا کہ انھوں نے خوش ہو کر پیٹھ ٹھونکے  کے لئے پیٹھ پر ایک ہاتھ مارا تو میں چوکی سے زمیں پر آرہا۔ مانیؔ صاحب  کا منھ گھٹنوں میں چھپا ہوا تھا اس لئے انھوں نے دیکھا نہیں کہ کیا ہوا جھوم جھوم کے داد دیتے اور شعر مکرّر مکرّرمجھ سے  پڑوھواتے رہے اور میں زمین  پڑا پڑا شعر دوہراتا رہا،یہ پہلا مشاعرہ تھا جس میں شاعر کی حیثیت  سے  میں شریک ہو ا۔اس مشاعرہ میں مجھے جتنی داد ملی اس کی یاد سے اب تک کوفت ہو تی ہے۔بزرگوں نے داد دی اور کچھ لوگوں نے شک کیا کی یہ غزل کسی اور کی ہے اور میں نے اسے  اپنے نام سے پڑھی ہے۔اس پر میں رونے لگا تب بڑے بھائی شبیر حسین وفاؔ جنہیں ابا سب سے زیادہ چاہتے تھے انھوں نے ابا سے کہا  انھوں نے جو غزل   پڑھی ہے وہ انہیں کی ہے شک دور کرنے کئے لئے کیوں نہ ان کا امتحان لے لیا جائے اس وقت ابا کے منشی حضرت شوقؔ بہرائچی تھے جو مزاحیہ شاعر تھے۔انھوں نے اس تجویز کی تائید کی مجھ سے  پوچھا گیا امتحان  دینے کے لئے تیار ہو میں خوشی سے تیار ہو گیا۔شوقؔ  بہرائچی  صاحب نے مصرعہ دیا ؎ 

 ’’اتنا ہنسو  کہ آنکھ سے آنسو نکل پڑے ‘‘

بھائی صاحب  نے کہا ان کے لئے یہ زمین بنجر ثابت ہوگی کوئی شگفتہ سی تجویز کیجئے لیکن میں نے کہا اگر غزل کہوں گا تو اسی زمین میں ورنہ امتحان نہیں دوں گا طے پایا کہ اسی طرح میں طبع آزمائی کروں  اور تھوڑی دیر میں تین چار شعر کہے جو اس طرح تھے جسے بعد میں بیگم اختر نے اپنی آواز سےپنکھ لگا دیئے اور وہ ہندوستان ،پاکستان میں مشہور ہوگئی وہ غزل میری زندگی کی پہلی غزل ہے کو میں نے 11 سال کی عمر میں کہی تھی۔

 اتنا تو زندگی میں کسی کی خلل پڑے
ہنسنے سے ہو سکوں نہ رونے سے کل پڑے                                                                                                                                                     جس طرح ہنس رہا ہوں میں پی پی کے گرم اشک
یوں دوسرا ہنسے تو کلیجہ نکل پڑے

بہرائچ کے مشہور استاد شاعر  منشی محمد یار خاں رافتؔ بہرائچی ،جمال الدین   بابا جمالؔ بہرائچی ،بابو سورج نارائن سنگھ آرزوؔ بہرائچی ،بابو لاڈلی پرشاد حیرتؔ بہرائچی،راقم کے پرنانا اور بہرائچ کے مشہور تاجر و شاعر جناب حاجی شفیع اللہ شفیعؔ بہرائچی کیفی ؔ اعظمی صاحب کے بہرائچ کے  دوستوں میں سے تھے۔ بعد میں بھی کیفی کا بہرائچ آناجانا بنا رہا جس میں وہ اپنے بچپن کے دوستوں سے شفیع ؔصاحب کی دکان پر ملاقات کرتے تھے۔

حوالہ جات
• سرمایہ
• بہرائچ  ایک تاریخی شہر

جنید احمد نور
بہرائچ

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

حضرت سید سالار مسعود غازیؒ

حضرت سید سالار مسعود غازیؒ- جنید احمد نور

Bahraich Great Freedom Fighters (Hindi and English)