Posts

”صدائے وطن“ مجموعہ کلام بابا جمال بہرائچی منظر عام پر

Image
صدائے وطن“ مجموعہ کلام بابا جمال بہرائچی منظر عام پر۔” آج شہر کے محلہ ناظر پورہ میں واقع عبد القادر انٹر کالج میں الاحسان اکیڈمی بہرائچ کے زیر اہتمام ایک پروقار تقریب رونمائی بسلسلہ ”صدائے وطن“ مجوعہ کلام حضرت مولانا جمال الدین احمد بابا جمال بہرائچی مرحوم و مغفور جس کے مرتب جنید احمد نور ہے منعقد ہوئی۔     تقریب کا آغاز حافظ محمد مسعود صاحب امام مسجد خنجر  شہید رحمہ اللہ کی تلاوت قرآن سے ہوا۔ اس کے بعد محمد ظفر نے بابا جمال کی نعت رسول پیش کیا۔ تقریب کی صدارت محترم جناب سید مسعود المنان صاحب سئینر ایڈووکیٹ نے کی جب کہ مہمان خصوصی کے طور پر ڈاکٹر محمد سلمان بلرام پوری استاد جواہر نوادے اسکول بہرائچ اور مہمان اعزازی کے طور پر محترم جناب خالد نعیم صاحب اور بابا جمال بہرائچی کے شاگرد محترم جناب ماسٹر عبد الرحیم صاحب نے شرکت فرمائی۔ اس موقع پر جناب ڈاکٹر سفیان احمد انصاری اور جناب خالد نعیم صاحب نے مقالات پیش کیے، ان کے علاؤہ ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب ، ڈاکٹر محمد سلمان بلرام پوری،جناب جمال اظہر صدیقی، ماسٹر عبد الرحیم صاحب نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اکمل نذیر اور مظہر سعید نے منظوم

حضرت اظہار وارثی مرحوم کو خراج عقیدت: اکمل نذیر

Image
میرے شہر کے مشہور و معروف شاعر مرحوم اظہار وارثی صاحب کے یوم وفات پر منظوم خراج  اکمل نذیر  حضرت اظہار وارثی  تصویر جنید احمد نور  ~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~ تیری فکر رسا کا تھا طائر جہاں ماہ و انجم بھی حیرت سے تکتے تھے واں بزم اظہار فن کا تو سردار تھا زیور شاعری کا تو زردار تھا تیری شیریں بیانی کا ہی فیض تھا چشم دل تجھ کو سن کر ہی ہوتی تھی وا تھا روایت پسندی سے ناطہ ترا اور جدت طرازی بھی شیوہ ترا تو امام سخن، چشمہء علم و فن گر بدن ہے سخن، تو ہے روح سخن چاک قدرت کا تو کوئ شہکار تھا تیری مٹی میں تھا راز فطرت چھپا ہو گیا جو عیاں تیرے افکار سے لے لیا تو نے کام اپنے اظہار سے یوں تو شاعر بہت ہیں زمانے میں پر شاعری کی انھیں کچھ نہیں ہے خبر وزن سے بھی لڑیں، فکر سے بھی لڑیں  اور کسی کو تلفظ کے لالے پڑیں سامنے تھے جو تیرے سب اوندھے پڑے ایک تو کیا گیا سارے سر اٹھ گئے تیرے جانے سے سونی ہے بزم سخن   اب بچے ہیں یہاں بس دریدہ دہن تیرا انداز فن اور طرز بیاں ہے کمالات میں تیرا ثانی کہاں گو پرے ہے تو از حد وہم و گماں ڈھونڈھتے ہیں تجھے پر زمان و مکاں شاعری تیرے بن بزم کا داغ ہے اب سخنور ہے جو، پیروئے زاغ

बहराइच उर्दू_अदब में बहराइच और हज़रत_सैय्यद_सालार_मसऊद_ग़ाज़ी (रह.)

Image
  #بہرائچ #اردو_ادب میں حضرت سید سالار مسعود غازیؒ बहराइच उर्दू_अदब में  बहराइच और हज़रत_सैय्यद_सालार_मसऊद_ग़ाज़ी (रह.) جنید احمد نور Juned Ahmad Noor.   انشااللہ خاں انشاؔبھی بہرائچ آئے تھے اور بہرائچ کی مقدس سرزمین پر اپنی کلم کا جادو بکھرا ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے ٹھاکر ٹپررہا اسٹیٹ ضلع بہرائچ کی شاہی مسجد کی تعمیر پر فارسی اور اردو میں تاریخی قطعات بھی کہے تھے جو کلیات میں موجود ہیں۔ آپ کا یہ شعربہت مشہور ہے جس میں آپ نے بہرائچ کی سرزمین کی اہمیت کو بیان کیا ہے۔ ؎ دلکی بہرائچ نہیں ہے ترک تازی کا مقام ہے یہاں پر حضرت مسعود غازیؒ کا مقام ایک دوسرے شعر میں ا نشا اللہ خاں انشا ؔلکھتے ہیں کہ ؎ یو ں چلے مژگان سے اشکِ خو ن فشاں کی میدنی جیسے بہرائچ چلے بالے میاں کی میدنی لخت دل مسعود نیلے گہوڑے داغ ہی جلوئہ انوار سے کرو بیان کے میدنی इंशाअल्ला ख़ां इंशा भी बहराइच आए थे और बहराइच की पावन धरती पर अपनी लेखनी का जादू बिखेरा है।आप का एक शेर बहुत प्रसिद्ध है जिसमें आप ने बहराइच की धरती की अहमियत और दरगाह हज़रत सैय्यद सालार मसऊद ग़ाज़ी (रह.) के वार्षिक मेला जेठ का उल्लेख करते हुए

زہرہ بی بی، ماہ جیٹھ کا میلہ اور بارات کا رواج

Image
  زہرہ بی بی، ماہ جیٹھ کا میلہ   اور بارات کا رواج   جنید احمد نور               حضرت سید سالار مسعود غازیؒ کی شہادت کو ۱۰۲۰ سال گزر چکے ہیں اب تک مگر ان کی یادیں   آج بھی مقامی اور بیرونی عوام پر روز اول کی طرح نقش ہیں۔ ان کی درگاہ جو    شمالی ہندوستان کی سب سے قدیم اور   بڑی درگاہ ہے جس کی تاریخ ایک ہزار سال قدیم ہے   جہاں بلا تفریق مذہب و ملت، اہل اسلام کے ساتھ ساتھ برادران وطن بھی اپنے عقیدت کے نذرانے پیش کرنے آتے ہیں آج بھی گنگ وجمن تہذیب کا دلکش نمونہ   اہل وطن کے سامنے پیش کرتی ہے۔ یہاں سال میں تین مرتبہ سالانہ میلوں کا اہتمام ہوتا جن کے نام اس طرح ہیں :۔ (۱) سالانہ میلہ   بسنت (۲)سالانہ میلہ رجب(میلہ عرس)    (۳) سالانہ میلہ جیٹھ۔   میلہ بسنت میں     جیٹھ میلہ کی تاریخ   طے جاتی ہے   اور یہ میلہ ۵دنوں   تک ہوتا ہے جبکہ رجبی میلہ آپ کی شہادت کی یادگار ہے اور یہ بھی ۵ دن تک ہوتا ہے ، جبکہ میلہ جیٹھ     سالانہ   ایک ماہ تک چلتا   ہے   اور یہ ایک ٹریڈ فئیر   بھی ہوتا ہے۔ یہاں ہم   سالانہ جیٹھ میلے کی تاریخ پر   کتابوں کے حوالے سے بات کرتے ہیں:۔             خواجہ اکبرؔ وارثی

सय्यिद सालार मस्ऊ’द ग़ाज़ी रहमतुल्लाह का इतिहास। जुनेद अहमद नूर

Image
सय्यिद सालार मस्ऊ’द ग़ाज़ी रहमतुल्लाह का इतिहास।  जुनेद अहमद नूर   बहराइच शहर ख़ित्ता-ए-अवध का क़दीम इ’लाक़ा है।बहराइच को सय्यिद सालार मस्ऊ’द ग़ाज़ी और उनके जाँ-निसार साथियों की जा-ए-शहादत होने का शरफ़ हासिल है,जिसकी बरकत से पूरे हिंदुस्तान में बहराइच अपना अलग मक़ाम रखता है।अ’ब्बास ख़ाँ शेरवानी ने ब-हवाला ”मिर्आत-ए-मस्ऊ’दी” लिखा है कि सालार मस्ऊ’द ग़ाज़ी (रहि.) की पैदाइश 21 रजब या शा’बान 405 हिज्री मुताबिक़ 15 फ़रवरी 1015 ई’स्वी को अजमेर में हुई थी।(हयात-ए-मस्ऊ’दी,मत्बूआ’1935 ई’स्वी सफ़हा 50) आपके वालिद का नाम सय्यिद सालार साहू और वालिदा का नाम बी-बी सत्र मुअ’ल्ला(बहन सुल्तान महमूद ग़ज़नवी) था।आप अ’लवी सय्यिद हैं।मुसन्निफ़-ए-‘‘आईना-ए-मस्ऊ’दी’’ ने आपका नसब-नामा इस तरह लिखा है:”सालार मस्ऊ’द ग़ाज़ी बिन शाह साहू ग़ाज़ी बिन शाह अ’ताउल्लाह ग़ाज़ी बिन शाह ताहिर ग़ाज़ी बिन शाह तय्यिब ग़ाज़ी बिन शाह मोहम्मद ग़ाज़ी बिन शाह उ’मर ग़ाज़ी बिन शाह मलिक आसिफ़ ग़ाज़ी बिन शाह बत्ल ग़ाज़ी बिन शाह अ’ब्दुल मन्नान ग़ाज़ी बिन शाह मोहम्मद हनीफा ग़ाज़ी (मोहम्मद इब्न-ए-हनफ़िया)बिन असदुल्लाह अल-ग़ालिब अ’ली इब्न

علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور بہرائچ کا تعلق: جنید احمد نور

Image
  ‎ * ‎ * ‎ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور بہرائچ ‎ * از جنید احمد نور بہرائچ 17 ؍ اکتوبر 2021ء ‏ 1857 ءکی پہلی جنگ آزادی کے بعد مسلمانان ہند پر جو ظلم وستم توڑے گئے وہ ہم سوچ ہی نہیں سکتے جو ‏لوگ ملک کے حاکم تھے ان کو سب سے زیادہ انگریزوں کے جور و ستم کو برداشت کرنا پڑا جس کا سب سے زیادہ اثر ‏مسلمانان ہند کے تعلیمی مراکز پر پڑا۔ علمائے ہند نے جنگ آزادی کی جد وجہد کا بگل بجا رکھا تھا اور ‏مکاتب میں مجاہدین آزادی کی تربیت بھی ہوتی تھی اور سب سے زیادہ قربانی بھی علمائے ہند نے دی دہلی و اطراف ‏میں ہر طرف پیڑوں پر مسلم علماء کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکایا گیا۔جس کے سبب مسلمان تعلیمی میدان میں پیچھے ہو ‏گئے ۔ان کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے جہاں ایک طرف جنگ آزادی میں ناکام ہونے کے بعد ‏علماءکی ایک جماعت نے دارالعلوم دیوبند اور دیگر مدارس کی بنیاد رکھی اور مذہبی تعلیم سے آراستہ کرنا شروع کیا وہیں ‏دوسری طرف سماجی اور تعلیم یافتہ لوگوں نے مسلمانان ہند کی جدید تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کوششیں ‏کرنی شروع کی جس میں سرکردہ کردار سر سیداحمد خاں نے ادا کیا جن کے بارے میں جناب عبی