حضرت سید سالار مسعود غازیؒ

حضرت سید سالار مسعود غازیؒ
جنید احمد نور
مزار مبارک حضرت سید سالار مسعود غازیؒ

نعل دروازہ درگاہ شریف بہرائچ

بہرائچ کی  تاریخ میں کیا اہمیت ہے ،یہ مولانا سید  ابو الحسن علی ندوی ؒ سابق صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ؍ سابق ناظم ندوۃ العلما  ٫      لکھنؤ کے ان الفاظ سے سمجھی جا سکتی ہیں جو انہوں نے۱۷اور۱۸؍  اپریل ٫۱۹۸۲؁ میں منعقد ہوئی پانچویں  صوبائی  دینی تعلیمی کانفرنس بہرائچ   میں خطبئہ صدارت میں کہی  تھیں۔  جو یہاں نقل ہے۔ ’’انسانی فیصلہ کی طاقت  اور کرامت کی ایسی مثالیں ہیں ،جن کا باور کرنا مشکل ہے،اس کی ایک شہادت آپ کا شہر(بہرائچ) پیش کرتا ہے کہ خدا کا ایک بندہ(سید سالار مسعود غازیؒ)غزنی افغانستان سے رفقا٫ کی ایک چھوٹی سی جماعت کے ساتھ اس ملک میں جو ایک تحتی برا عظم ہے،داخل ہوتا ہے،وہ توحید کا پیغام پہنچانے اور انسانوں کو انسانیت کا سبق سکھانے کے لئے سر ہتھیلی پر رکھ کر آئے ،عقل کا فیصلہ صریحاً اس کے خلاف تھا،کوئی  آدمی صحیح الحواس ہونے کے ساتھ اس کی ہمت نہیں کر سکتا تھا کہ اتنے لمبے چوڑے ملک میں ساتھیو ں کی اتنی تھوڑی تعداد کے ساتھ قدم رکھے اور یہ اس وقت کی بات ہے ،جب سفر اور ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل و حرکت کی یہ آسانیاں نہیں تھیں،لیکن وہ اس دور دراز مقام سے منزلوں پر منزلیں طے  کرتا  ہوا ،راستہ میں اپنے سفر کی نشانیاں چھوڑتا ہوا اس خطہ میں آکر اپنے کام کو ختم کر دیتا ہے  یا اس سے اس کام کو ختم کر ا دیا جاتا ہے۔،آج وہ یہاں آسودۂ خاک ہے،ایک فر د کے فیصلہ کی طاقت کا یہ ایسا روشن ثبوت ہے جس کی مثال دور دور تک نہیں ملتی۔‘‘ سالار مسعود غازی ؒ کی پیدائش  ۲۱؍ رجب یا           شعبان               ۴۰۵؁ھ مطابق ۱۵؍ جولائی        ۱۰۱۵؁ء کو  اجمیر میں ہوئی تھی ۔ آپ کے والد کا نام سید سالار ساہو اور والدہ کا نام  بی بی  ستر معلّٰیّ(بہن سلطان محمود غزنوی) تھا ۔آپ علوی سید ہیں۔ مصنف ’’آئینہ مسعودی ‘‘  نے  آپ کا نسب نامہ اس طرح لکھا ہے: ’’سالارمسعود غازی  بن شاہ ساہو غازی بن شاہ عطا اللہ غازی بن شاہ طاہر غازی بن شاہ طیب غازی بن شاہ محمد غازی بن شاہ عمر غازی بن شاہ ملک آصف  غازی بن شاہ بطل غازی بن شاہ عبد المنان غازی بن شاہ محمد حنیفہ غازی  بن اسد اللہ الغالب علی ابن طالب کرم اللہ وجہہ ۔‘‘ قطعات  تاریخ ولادت   از اکبر ؔ وارثی
ہوئے پیدا جو غازئ مسعود
ظلمت ِ جہل ہو گئی کافور

اکبرؔ وارثی یہ ہے الہام
لکھ ولادت کا سال مطلع نور

                                                                                                                                                                                                                                                           ۴۰۵ہجری
عباس خاں شیروانی آگے لکھتے ہیں کہ جب سپہ سالار مسعود غازی کی عمر قریب ساڑھے چار سال کے ہوئی تو سید ابراہیم  کی استادی میں ان کی تعلیم کی بسم اللہ ہوئی۔چونکہ ذہین  اور طباع  تھے۔اس لئے دس سال کی عمر میں خاصی ترقی کر لی ۔محمود اس وقت خراسان کی مہموں میں مصروف تھا ۔اس مصروفیت کو دیکھ کر دامن کوہ کی رعایا نے محمود کے گورنر ملک چھجو کو دق کر نا شروع کیا انھوں نے محمود سے شکایت کی ۔اس پر سالار ساہوکا تبادلہ اجمیر سے کاہلیر کو کر دیا گیا کہ وہاں کا  انتظام کریں۔سالار ساہو       اپنے اکلوتے بیٹے کو اور بی بی سترمعلیٰ کو اجمیر چھوڑ کر  کاہلیر چلے گئے۔جب سپہ سالار کا  کاہلیر  پر تسلط ہوگیا  اور محمود غزنوی نے مستقل طور پر ان کو وہاں رہنے کا حکم دے دیا تو  سالار ساہو نےبی بی سترمعلیٰ اور سپہ سالا ر مسعود کو بھی کاہلیر  میں طلب  کیا۔سلطان محمود خود تو آپ سے محبت کرتا تھا لیکن اس کا بیٹا مسعود غزنوی اور وزیر احمد بن حسن میمندی اس محبت سے خوش نہ تھے۔   جس کی وجہ سے سید سالار مسعود غازی ؒنے پایئہ تخت میں قیام کرنا         مناسب نہ سمجھا اور ۱۰۲۷؁ء مطابق                           ۴۱۸؁ ھ                         کے اواخر میں سلطنت کی طرف سے علاحد گی اختیار کر لی اور سلطان محمود سے اجازت لیکر کلمہ حق کی اشاعت کے لئے غزنی سے ہندوستان کی طرف سفر شروع کیا۔مختلف مقامات ملتان، اوجھ ،اجودھن ،دہلی،میرٹھ ،گڑھ مکتیشور،سنبھل،قنوج،گوپا مئو،کانپور،بلگرام،ملاواں (ہردوئی)،سترکھ،کڑا مانکپور،ڈلمئوپہونچے۔ان مقامات میں بعض جگہ  راجاؤں  نے مقابلہ کیا لیکن فتح یابی کا سہرا آپ کے ہی سر رہا۔فتح حاصل کرتے ہوئے آپ سترکھ ضلع بارہ بنکی تک آ گئے۔یہیں پر آپ کے والد سید سالار ساہو ؒ کی وفات ہوئی ۔آپ  کے والد کا مقبرہ سترکھ میں موجود ہے اور مرجع خلق ہے۔ سالار مسعود ؒ ؒ قنوج فتح                   کر کے وہیں مقیم تھے۔بالے میاں کے نام سے دور دور تک آپ کی شہرت تھی۔بہرائچ میں سورج کنڈ  تالاب کے کنارے بالارکھ نام کا ایک پتھر تھا۔جس کے اوپر نکلتے(اگتے) ہوئے  سورج کی شکل کا نقشہ بنا ہوا تھا۔ وہاں ہر سال ماہ  جیٹھ کے پہلے اتوار کو  مقامی قوم جو سورج کی پرستش  کرتی  تھی،ان میں سے ایک انسانی جان کی بلی چڑھائی جاتی تھی اور وہ بھی اس شخص کی جو خاندان کا اکلوتہ بیٹا ہو۔ایک شام اسی قرعہ اندازی میں موضع نگرور(گونڈہ روڈ پر بہرائچ سے۶     کلومیٹر کی دوری پر) کے ایک اہیر کے لڑکے کا نام نکلا۔اس کے خاندان میں ایک ہی لڑکا تھا ۔اس لڑکے کا والد بہت پریشان ہو گیا اور سید سالار مسعود  کے پاس قنوج پہنچ گیا۔اس اہیر نے آپ سے فریا د کی اور آپ نے اسے اطمینان دلا کر بہرائچ واپس بھیج دیا پھر  آپ نے وہاں جیٹھ کے ماہ سے پہلے بہرائچ آکر اس تالاب کے کنارے قیام کرلیا۔اور پھر جنگ و جدال کی ابتدا ء ہوئی جس کی وجہ سے اس اہیر کے لڑکے کی جان بچ گئی۔ مصنف ’’سلطان الشہدا ء  حضرت سید سالار مسعود غازی ؒ              ‘‘سید ظفر احسن بہرائچی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں  جب آ پ کی شہادت ہو گئی تو سب سے پہلے اس اہیر نے ہی آپ کا مزار دودھ  میں مٹی گوند کر بنایا تھا۔ شعبان                 ۴۲۳؁ھ مطابق ۱۰۳۲ء؁ میں سالار مسعودؒ بہرائچ    آئے تھے اس زمانے میں  بہرائچ میں جنگل ہی جنگل تھا اور چھوٹی چھوٹی بستیاں تھیں  اور بہت سے خود مختار راجہ تھے۔اگرچہ وہ قنوج کے راجہ کے ماتحت تھے۔سہیٹ مہیٹ ضلع بہرائچ(موجودہ وقت میں ضلع شراوستی ) کے قریب۱۹۰۷ء؁ میں ایک کتبہ برآمد ہوا تھا  جو موجودہ  وقت میں لکھنؤ کے عجائب گھر میں موجو د ہے۔اس سے معلوم ہو تا ہے کہ قنوج کے راجہ چندردیوگھدوال نے اس طرف کے چھ گاؤں برہمنوں کو دئے تھے۔جس سے قنوج کی ماتحتی ثابت ہے۔مگر یہ ماتحتی ایسی تھی   کہ سالار مسعود غازیؒ کے ساتھ راجہ قنوج کے اچھے برتاؤ  کے باوجودبھی  ماتحت راجاؤں کو سالار مسعود غازیؒ کے ساتھ جنگ کرنے سے نہ روک سکی ۔ حیات مسعودی میں ہے کہ سالار مسعود  کا قیام بہرائچ میں چند ہی روز ہوا تھا کہ ملک فیروز نے سترکھ سے  خبر بھیجی کی سالار ساہو کچھ  دن بیمار رہ کر انتقال کر گئے۔ اسی عرصہ میں بہرائچ کے راجاؤں  کا پیام آیا کہ یہاں سے چلے جاؤ یہ مقام تمہارے لائق نہیں  ہے۔سپہ سالار مسعود غازیؒ نے نہایت تدبیر سے کام لے کر جواب دیا کہ میں خود جانتا ہوں کہ جنگل اورعلاقہ خراب ہے۔میں بسنے کے لئے نہیں آیا۔تھوڑے دن شکار کھیلنے کے بعد چلا جاؤں گا۔اس تھوڑے سے زمانہ کے لئے عارضی صلح  کے طور پر عہد نامہ مرتب کر لیا جاوئے یہ ایک معقول تجویز تھی مگر اس کو ٹھکرا دیا گیا۔ سبھی راجاؤں نے دریائے کتھلہ کے کنارے اپنا ڈیرہ ڈال دیا۔سپہ سالار مسعود غازی  نے سرداران لشکر سے مشورہ کیا اور یہ طے ہوا کہ راجگان کا انتظار کرنے کے بجائے خود ان پر پہلے حملہ کیا جائے۔چنانچہ سالار موصوف نماز مغرب کے  بعد روانہ ہوگئے اور سالار سیف الدین کو آگے آگےبطور ہراول روانہ کیا۔راتوں رات سفر کرکے صبح ہندؤں کے لشکر کے قر یب پہنچ گئے۔اور مسلمانوں کی جنگی ترکیب کے مطابق لشکر کو ترتیب دے کر حملہ کیا۔گھمسان کا رن پڑا۔دونوں طرف کےبہت سے لوگ مارے اور زخمی ہوئے  مگر جیت سالار مسعود غازی  کی ہوئی اور کچھ راجہ قید ہوئے۔سات روز میدان جنگ میں قیام کر کے شہدا کو دفن کیا۔آٹھویں روز بہرائچ واپس آئے۔  پہلی جنگ میں ہار سے ہندوں سرداروں کے دل میں خیال آیا کہ  چھوٹی باتوں کے بعض دفعہ بڑے نتائج ہوتے ہیں ایسا نہ ہو کہ یہ دھن کا پکّا      اور بہادر نوجوان آہستہ آہستہ پورے ملک  دبالے ۔اسی خیال سے بہرائچ کے باہر کے سرداروں کو جمع کیا گیا۔ جس  سے دوسری جنگ  کی تیاری شروع ہو گئی۔چند ماہ کی تیاری کے بعد کچھ راجہ دریائے بھکلہ پر دوبارہ جمع ہوئے اور سپہ سالار مسعود غازی کو  پیام دیا کہ اگر وہ اپنی خیریت چاہتے ہیں تو سرجو  پار چلے جاویں۔سپہ سالار مسعود غازی نے وہی پہلا جواب دیا اور کہلا بھیجا کہ ملک خدا کا ہے جس کو چاہتا ہے   دیتا ہے تم بھی تو آخر ہمیشہ سے یہاں نہ تھے۔اب بجز لڑائی کے کوئی دوسرا چارہ نہ تھا۔ سپہ سالار مسعود غازی ؒنے مشورہ کیا اور رائے قائم کی کہ مخالفین کا بہرائچ آنا ٹھیک نہیں خود ہی چل کر ان پر حملہ کیا جاوے۔چنانچہ فوج آگے بڑھی تو اس پر آتش بازی پھینکی گئی اور بہت سے سواروں کے گھوڑے لوہے کی کیلوں کی وجہ سے گرے اور سوار وں  کو گرایا۔مگر باوجود بڑے نقصان کے کامیابی کا سہرا پھر بھی سپہ سالار مسعود غازیؒ  کے سر رہا۔فتح یابی کے بعد شہدا کو دفن کرنے کا موقع مل گیا اور تین دن تک دریائے بھکلہ پر قیام رہا۔ ’’حیات مسعودی ‘‘میں ہے کہ تیسری اور آخری جنگ  کی تیاری ہونے لگی جو فیصلہ کن ثابت ہوئی۔گزشتہ دو لڑائیوں کے نتیجے دیکھ کر ہندو سرداروں نے اپنی جنگی ترکیب بدل دی اس کے علاوہ انھوں نے دیکھا کہ سپہ سالار مسعود غازی کی جمعیت تھوڑی رہ گئی ہےاب  اس کو سنبھلنے کا موقع نہ دینا چاہئے ۔چنانچہ سہر دیو کی سرکردگی میں ہندو فو ج بہرائچ پر بڑھی۔جب حضرت سید سالار مسعود غازی کو معلوم ہوا تو انہوں نے اپنی باقی ماندہ فوج کو جمع کیا اور  پر جوش خطبہ دیا۔بعد خطبہ سپہ سالار مسعود غازی کے جو کچھ تھا سب فوج کو بخش دیا۔اور ایک دستہ کو بطور ہر اول کے مقرر کرکے حکم دیا کہ وہ بہرائچ سے دو کوس کی دوری پر فوجی چوکی قائم کرے  اور خود عبادت میں مشغول ہوئے۔ تیرھویں رجب           ۴۲۴؁ ھ کو صبح کے وقت مخالفین کا لشکر اس فوجی دستہ کے سر پر آپہونچا جو آگے بھیجا گیا تھا۔لڑائی شروع  ہوگئی اور سپہ سالار مسعود غازی کے پاس خبر بھی          پہونچی تو وہ خود بھی اپنی فوج کے ہمراہ چلے اور سورج کنڈ پر ٹھہرے۔اس کے بعد پوری فوجوں میں لڑائی شروع ہو گئی۔پورا دن ختم ہو گیا لیکن فیصلہ نہ ہوسکا۔دوسرے دن صبح پھر لڑائی شروع ہو گئی۔مخالف فوج کی تعداد بہت زیادہ تھی ۔ دوپہر تک دوتہائی مسلمان شہید ہوگئے تھے۔جن میں سالار سیف الدین بھی تھے۔یہ حضرت سالار مسعود غازی ؒکے دست راست تھے۔ہر مشورہ میں شریک رہتے تھے۔سپہ سالار مسعود غازیؒ کے حکم سے  جملہ شہدا کو سورجکنڈ میں دفن کےلیے ڈال دیا گیا۔خود سپہ سالار مسعود غازیؒ نے سب جنازوں کی نماز پڑھائی تھی۔عصر کا وقت  ہو گیا تھا لڑائی جاری تھی۔ایک تیر ۱۴ ؍رجب             ؁۴۲۴ھ   مطابق۱۵؍ جون 1033ء             کو حضرت سید سالار مسعود غازی ؒکے گلے میں لگا جس سے وہ کلمہ پڑھتے ہوئے شہید ہوگئے۔سکندر دیوانہ جو ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے تھے اور چند لوگ جوموجود تھے۔انھوں نے مہوئے کےایک  درخت کےنیچےآپ کوقبلہ رخ کر کے لٹا دیا۔اور جو چند لوگ تھے۔وہ شام تک لڑتے رہے۔یہاں تک کی سب شہید ہوگئے۔رات ہو گئی اور لڑائی رک گئی۔  کچھ لوگ بچ گئے تھے جو زخمی تھے وہ بہرائچ پہونچے اور امیر سید ابراہیم ؒ                                   کو جنہیں  سالار مسعود غازیؒ               کیمپ میں چھوڑ گئے تھےاس واقعہ کی  اطلاع دی۔دوسرے دن  صبح امیر سید ابراہیم میدان جنگ میں گئے اور سب سے پہلے حضرت سید سالار مسعود غازی کو دفن کیا اور پھر دیگر شہدا کو۔ سلطان محمد تغلق نے آپ کے مزار کو دوبارہ بڑی شان سے تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا۔آپ سے اور آپ کی مزار سے کئی کرامتیں منسوب کی جاتی ہیں اور عوام  الناس میں آپ کا بڑا اثر ہے۔بہرائچ میں جہاں آپ کا مزار ہے آپ کا عرس بڑی دُھوم دھام  سے ہوتا ہے اور اس کے علاوہ لاہور،دہلی،اور دیگر بڑے شہروں میں بھی آپ کے نام پر علم نکالے جاتے ہیں۔
قطعہ تاریخ شہادت حضرت سید سالار مسعود غازیؒ  
سالار غازی درچمن خلد  چوں رسید
غلمان و حور      راشدہ   امروز     روز عید

اکبرؔ بفکر بود کہ ہاتف زغیب گفت
تاریخ انتقال ، ولئی جہاں  شہید

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                           ۴۲۴ ہجری
حضرت مسعودؒ غازی  کی شہادت کا کمال
جب ہوا مقبول حق آئی ندائے ذوالجلال

ہے یہ زندہ اس سے ہم راضی ہیں اکبرؔ وارثی
لکھدو          ،                                      بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ                  ،  رحلت کا سال

                                                                                                                                                                                                                                    ۴۲۴ہجری


حواالہ جات 
حیات مسعودی
آآئینہ مشعودی
بہرائچ ایک تاریخٰی شہر


Comments

Popular posts from this blog

حضرت سید سالار مسعود غازیؒ- جنید احمد نور

Bahraich Great Freedom Fighters (Hindi and English)