Posts

Showing posts from August, 2019

جنگ آزادی میں بہرائچ

Image
جنگ آزادی میں بہرائچ                                                               جنید احمد نور جنگ آزادی میں بہرائچ                                                               جنید احمد نور 1857 ء کی جنگ آزادی میں بہرائچ کا اہم کردار رہا ہے   ۔بہرائچ کے چہلاری   کے راجہ بلبدھر سنگھ   نے بیگم حضرت محل کی فوج کی کمان سمبھالی تھی ۔اور اسی جنگ میں شہید بھی ہوئے ۔بیگم حضرت محل   کو راجہ چردا                نےاپنے قلعہ میں پناہ دی تھی اور وہیں سے وہ بہرائچ کے راستے سے نیپال کو گئی تھی۔اس کے علاوہ بہرائچ کے کئی حصوں میں آزادی   کے متوالوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج سے جنگیں ہوئیں ۔کچھ دیسی ریاستوں نے جو پہلے آزادی کے سپاہیوں کے ساتھ تھیں۔جنگ میں ہار جانے کے بعد خود سپردگی کر دی   جن میں ریاست   رہوا ،بھنگا اور ٹیپرہ وغیرہ شامل تھے۔ان کے کچھ علاقے ان سے چھین لئے   تھے۔ 1860 ء میں        ریاست نیپال کے ساتھ ہوئے   معاہدہ میں ترائی /تلسی پور کے علاقے کو نیپال کو سونپ دیا گیا تھا۔اسی طرح انگریزوں نے کچھ علاقے راجہ   کپورتھلا اورراجہ بلرام پور کو بھی دئےتھے۔7؍فروری1856ء کو

شیخ فیروزشہید بہرائچی ؒ جد امجدشیخ عبد الحق محدث دہلویؒ शैख़ फ़िरोज़ शहीद (रह.)जद अमजद शैख़ अब्दुल हक़ मुहद्दिस देहलवी (रह.)

Image
  मज़ार शैख़ फ़िरोज़ शहीद (रह.) مزار شہخ فیروز شہید بہرائچیؒ  شیخ فیروز شہیدؒ مصنف اخبار اخیار شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ کے پر دادا تھے۔ آپ کا مزار بہرائچ میں ہے۔ ’’اخبار اخیار‘‘ میں شیخ عبد الحق محدث دہلو یؒ نے اپنے خاندان کے حالات شیخ فیروز شہیدؒ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:   ملک موسیٰ کے کئی لڑکے تھے جن میں ایک کا نام شیخ فیروز تھا۔ شیخ فیروز میرے دادا کے حقیقی دادا تھے۔شیخ فیروز تمام فضائل ظاہری و باطنی سے موصوف تھے۔ اور دینی وکسبی نعمتوں سے مالامال  تھے۔ فن جنگ میں اپنی مثال نہ رکھتے تھے۔ جنگی ترکیبوں میں اپنی قوت طبع اور سلیقہ کے لیے بے نظیر تھے۔ علم شاعری ،دلیری ،سخاوت ظرافت ،لطافت،عشق ومحبت اور دیگر صفات حمیدہ میں یکتائے روزگار تھے۔نیز دولت و حشمت،عزت وعظمت میں شہرۂ آفاق تھے۔ ہمارے گھر میں شریں کلامی ،ذوق و ظرافت آپ ہی کی وجہ سے پیدا ہوا ۔ آپ سلطان بہلول کے دور حکومت کے ابتدائی زمانہ میں بقید حیات تھے۔آپ نے سلطان حسین شرقی کی آمد اور سلطان بہلول سے جنگ کا قصہ نظم کیا تھا۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی آگے لکھتے ہیں کہ یہ کلام ہمارے پاس تھا لیکن اس وقت نہیں ہے البتہ اس کے