جامعہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ کے اولین مہتمم

مولانا الحاج محمد احسان الحق اول مہتمم جامعہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ  کا جائے مدفن

مولانا الحاج محمد احسان الحق مہتمم اول جامعہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ
مولوی محمد احسان الحق  ؒصاحب  اولین مہتمم جامعہ  مسعودیہ نور العلوم بہرائچ ہی نہیں تھے بلکہ ایک مثالی شخصیت تھے۔آپ  مثل انجمن کے تھے۔مدرسہ کا مہتمم ہونے کے علاوہ آپ عمدہ خطاط  ہونے ساتھ ہی ساتھ اکلیل پریس کے مالک بھی تھے۔
آپ کے صاحبزادے مولانا افتخار الحق ؒقاسمی صاحب کے مضمون سے ظاہر ہے۔جو  مولانا افتخار الحق صاحب کے صاحبزادے ڈاکٹر مولانا ابرارالحق  قاسمی ؔصاحب نے اس ناچیز کو فرہم کیا جس کا کچھ حصہ آپ سب کی خدمت میں پیش ہے۔
دادا جان مولانا نور محمد ؒصاحب کے تذکرے میں لکھا جا چکا ہے سیہ کار کے والد ماجد محمد احسان  الحق  دادا کی پہلی اولاد نرینہ ہیں۔اس لئے ظاہر ہے کہ انکی پیدائش پر غیر معمولی خوشی ہوئی ہوگی۔والد ماجد محمد احسان الحق صاحب کی ولادت 1316ھ مطابق 1898 ء میں  قصبہ رسڑا ضلع بلیا میں ہوئی۔
 محمد احسان الحق نام رکھا گیا اور اسی نام سے عقیقہ ہوا۔جب کچھ سنِ شعور کو پہنچے تو پھر پڑھائی کی ابتداء ہوئی غالب گمان یہ ہے کہ قرآن پاک اور کچھ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔پھر اسکے بعد مدرسہ میں داخل کئے گئے۔ یہ پتہ نہ چل سکا کی قصبہ رسڑا کے کسی مدرسہ میں یا پھر مئو کے کسی مدرسہ میں بہرحال دادا جان کو ان کی تعلیم کی  طرف کافی توجہ تھی او ر ان کو منتھٰی تعلیم دلانا چاہتے تھے۔مگر والد صاحب کا رجحان دوسرا ہو گیا۔تفسیر اکلیل کی طباعت کے سلسلہ میں جب پریس قائم ہوا تو  کتابت کے لئے متعدد خطاط اور کاتب  خوشنویس  بلائے گئے۔والد صاحب کو کتابت سیکھنے کا رجحان شدید ہو گیا چنانچہ تعلیم چھوٹ گئی۔خود ہی ایک بار بتایا کہ شرح وقایہ تک پڑھ کر چھوڑ دیا اور ہمہ تن کتابت سیکھنے میں مشغول ہو گئے ۔کوئی عمدہ خطاط منشی بالک رام تھے قصبہ رسڑا میں انہیں سے کتابت سیکھی اور بہت ہی عمدہ خطاط و خوش نویس بن گئے۔بعد میں جب بہرائچ منتقل ہوئے تو یہاں دوسرے کاتبوں کو بلایا گیا  ایک کاتب منشی دین محمد صاحب گورکھپور کے تھے بہت ہی بہترین خطاط تھے۔ والد صاحب نے ان سے مزید ہاتھ صاف کیا۔ان کو استاد کہتے تھے۔
دادا جان مرحوم جب  تفسیر اکلیل وغیرہ کی طباعت سے  فراغت ہوئی تو پریس کا کام  چھوڑ دیا ۔اور والد صاحب کارجحان دیکھ کر ایک ہینڈ پریس والد صاحب کو دیکر فرمایا کہ لو اسی سےتم کماؤ کھاؤ اس طرح والد صاحب نے پریس  کا کام نجی  طور پر بہرائچ ہی میں  شروع کیا۔ اللہ نے بڑی برکت دی۔اور یہ سلسلہ آج تک قائم ہے۔چونکہ دادا جان کا تعلق مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے کافی زیادہ  رہا تھا اس وجہ سےمکی مدنی  حضرات اکثر مہماں آتے رہتے تھے اور کافی دنوں تک قیام کرتے تھے۔ان کی ضیافت شاہانہ طور سے فرماتے تھے۔اس وجہ سے خود کامزاج بھی شاہانہ ہو گیا تھا۔کھانے پینے اور لباس  میں اپنے مزاج کے موافق رکھتے تھے۔اپنے  اور  درود و وظائف کے بہت سختی سے پابند  تھے۔رمضان شریف میں ہمیشہ آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے۔اور روزانہ ایک ختم قرآن کا اہتمام رہتا تھا۔
دعاء ،تعویذات کے لئے لوگ آپ کے پاس آتے تھے۔آپ بلاتکلف ہر ایک کوخواہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو تعویذیں دے دیا کرتے تھے۔پینے والی تعویذیں گلاب و زعفران سے لکھ کر دیتے تھے،کسی سے کبھی ایک پیسہ نہ لیا۔جب زعفران مہنگا ہو گیا تو حاجتمندوں سے صرف زعفران کے لئے کہدیتے وہ لاکر دیتا مگر پیسہ کبھی نہ مانگا ۔
والد صاحب بھی دادا جان کی طرح دادا جان کے مریدوں و معتقدین میں مقبول و معروف تھے۔ان کی بھی آواز بہت اچھی تھی بہت پڑھتے تھے۔میلاد شریف کی محفل میں لوگ اکثر بلاتے تھے۔نعتیں و نظمیں بیحد خوش الحان سے پڑھتے تھے لوگ سننے میں محو ہو جاتے تھے۔دادا جان کے وصال کے بعد دیہاتوں میں انکے مریدین اور معتقدین کی اصلاح  ورہنمائی کیلئے والد صاحب ہی تشریف لے جانے لگے اور مریدین والد صاحب کو بہت مانتے تھے۔ اکثر دیہات کے لوگ آکر بلا لے جاتے تھے۔موضع عاقل پور میں مستقل جاتے تھے۔ عیدکی نماز پڑھانے کے لئے اسکے علاوہ بھی نیز کوئی تقریب بغیر آپ کی شرکت کے نہ کرتے تھے۔گاؤں میں کوئی مسجد نہ تھی با جماعت نماز کے لئے ایک مسجد کی شدید ضرورت تھی ،والد صاحب نے اہل قریہ کو متوجہ کیا سب لوگ بخوشی   تیار ہو گئے  چنانچہ بالکل گاؤں کے داخلی سرے پر چھوٹی سی مسجد والد صاحب نے اپنی نگرانی
میں تعمیر کروائی اور نماز با جماعت مسجد میں ہونے لگی۔

والد صاحب نے دادا جان کے ہاتھ پر  27 رمضان 1342ھ میں باقائدہ بیعت کیااور ہر  دو سلاسل میں داخل ہوئے ۔نیز دلائل الخیرات وغیرہ کی اسی وقت  باقائدہ اجازت حاصل کی اور تب سے والد صاحب پابندی سے اذکار وظائف پڑھتے تھے۔
والد صاحب  مرحوم پریس کے کام کے ساتھ ساتھ دادا جان کی جگہ پر مریدین اور معتقدین کی رہنمائی کا کام بھی انجام دیتے تھے۔ چنانچہ اکژ خود دیہات کے  لوگوں کی خواہش پر دادا جان کے حلقہ مریدین  میں جا کر تبلیغ کا کام کرتے تھے۔بعض دفعہ تو 15-15 دن تک کا سفر و دورہ   ہوتا تھا۔نیز شہر میں بھی 12 ربیع الاول میں تقریباً  پورا پورا مہینہ مختلف  محلّو ں میں لوگ محفل میلاد میں آپ کومدعو کرکے  لیجاتے تھے۔آپ خوب خوب  تقریر کرتے تھے۔لوگ بیحد متاثر ہوتے تھے۔آپ عموماً ارکان اسلام  ،نماز،روزہ،حب رسولؐ،اتباع نبویؐ پر واعظ بیان کرتے تھے۔حب رسولؐ اور اتباع نبویؐ پر آ پ کی تقریر بڑی ہی  ایمان افزا اور پر سوز ہوتی تھی۔’’شاہ نامہ اسلام ‘‘منظوم  حفیظ ؔجالندھری  میں سے آپ اپنے مخصوص انداز سے واقعات پڑھ کر  اس انداز سے تشریخ کرتےکہ خود بھی روتے اور مجمع کو بھی متاثر کرکے رلا دیتے تھے۔ایک شخص محلہ گدڑی کا والد صاحب کا بہت مخالف تھا پتہ نہیں کیوں پھر ایسا ہوا کہ شہر میں ایک جگہ محفل میلاد منعقد ہوئی ،والد صاحب تقریر کیلئے مدعو تھے میں بھی ساتھ میں تھا  تقریر کے لئے  اسٹیج بنا یا گیا تھا۔تخت کے اردگرد  اور دور تک کافی مجمع اکٹھا تھا،وہ مخالف شخص اس دن پتہ نہیں کس طرح اس محفل میں والد صاحب کی تقریر سننے آگیا اور بالکل سامنے تخت سے لگ کر ہی بیٹھا تھا۔والد صاحب نے حُبّ رسول ؐ پر اپنے مخصوص انداز میں تقریر فرمائی اور حسب معمول ایک صحابیہ کی محبت کا واقعہ شاہ نامہ سے پڑھ کر نہایت ایمان افروز و پرسوز انداز میں بیان کرتے کرتے خود بھی رونے لگے میں نے دیکھا کہ وہ شخص بھی بڑی شدت سے رو رہا ہے اور ہچکی بند ھ گئی تھی۔محفل ختم ہونے کے بعد وہ بڑے والہانہ  انداز میں بڑھ کر اٹھا اور والد صاحب  سےمصافحہ کرتے ہوئے ہاتھ کو بھی چوما۔پھر جہا ں بھی شہر میں والد صاحب کا بیان ہوتا تھاوہ ضرور شرکت کرتا تھا۔والد صاحب کا دل بھی حُب رسول ؐ سے لبریز تھا۔اکثر نجی طور پر بھی حضور ﷺ کا ذکر خیر کرتے تو بے اختیار  آنسو نکل آتے تھے۔
دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر ہمشیرہ زاہدہ کا عقد رسڑا   کے محمد یونس مرحوم کے لڑکے شعیب احمد سے والد صاحب نے کر دیا تھا۔اس کے بعد آپ کا دل زیارت حرمین شریفین کے لئے مضطرب و بے چین رہنے لگا اور ہر وقت اس کی دھن سوار رہنے لگی،تو باوجود یہ کہ آپ شاعر نہ تھے۔مگر قلبی تاثرات  و واردات بے اختیار اشعار کی شکل میں ڈھلنے لگے اور آپ ہمہ وقت گنگناتے رہتے  اور پھر ان کو صفحہ قرطاس پر بھی منتقل کرنے لگے۔
سن  1945ء تھا کہ جب آپ نے حج کیلئے درخواست ایک جہاز کی کمپنی کو سو روپیہ ایڈوانس کے ساتھ بھیج دی اس وقت حج کی درخواستیں دخانی جہازوں کی کمپنیاں خود وصول کرکے حاجیوں کولے جایا کرتی تھیں کرایا تب کم تھا۔ والد صاحب کے ارادہ حج کو سن کر شہر کے متعدد حضرات بھی والد صاحب کی معیت میں جانے کے لئےآمادہ  ہوگئے اور اپنی درخواستیں والد صاحب کے  ذریعہ ہی ارسال کرادیں  انکے نام ہیں حاجی یار محمد صاحب ،حاجی عبد الغنی صاحب دو آدمی باغبان برادری کے اور نرہر گو نڈہ کے حاجی حبیب اللہ خاں عرف للّو خاں اور ایک گاؤں کے حاجی تھے۔اس طرح یہ مع والد صاحب  کے کل سات نفس کا قافلہ بن گیااور غالباً حافظ محمد بخش صاحب بڑی ہاٹ بھی اس سفر میں ہمراہ تھے۔سبھی حضرات کی درخواست منظور ہوگئی اور روانگی کا وقت قریب آگیا انھیں ایام میں ملک میں انتخابی الیکشن  کا چرچا  زوروں پر ہوا۔دو پارٹیاں کانگریس اور مسلم لیگ کا سب سے زیادہ زورتھا اور الیکشن میں انہی کا آپس میں مقابلہ تھاایک قدیم جماعت جمعیتہ العلماء کی تھی اور وہ نظریئہ کانگریس سے متفق تھی۔اس جماعت سے بھی بعض بعض شہروں میں امیدوار چنے گئے تھے۔چچا محفوظ الرحمٰن نامیؔ صاحب بھی مخلصین کی رائے مشورے و اصرار سے جمعیتہ العلماء کے امیدوار بہرائچ سے تھے ، چچا محفوظ الرحمٰن نامی صاحب نے والد صاحب سے الیکشن میں کامیابی کے لیے خصوصی دعا کرنے کے لئے کہا ۔ بہرحال سفر حجاز پر والد صاحب  تشریف لے  گئے اور بہت با مراد واپس ہوئے۔ آپ نے سب کے لئے خصوصی دعائیں کی تھیں بحمداللہ ان سب کی مقبولیت کا مشاہدہ کیا۔چچا صاحب بھی الیکشن میں کامیاب ہوئے تھے۔ 1953ء میں والد صاحب کو پھر سفر حجاز کا داعیہ ہوا اور اسکا محرک ایک مخلص و معتقد کی خواہش و آرزو کہ والد صاحب ان کے سفر حج کے ساتھی بنیں دوبارہ آپ حج کے لئے تیار ہو گئے۔ آپ دوبارہ حج کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے ۔
پھر 1955ء میں بہرائچ کے ایک مخلص حاجی ولی محمد  صاحب تھالی والے(ساکن محلہ غلام علی پورہ،شہر بہرائچ) حج  کے لئے تیار ہوئے اور درخواست دی  مگر سوا اتفاق سے انکی درخواست  غالباً تاخیر کے باعث واپس ہوگئی تو والد صاحب کے پاس آئے اور بضد ہو ئے کہ بمبئی چل کر کسی طرح سے سیٹ  دلا دیئجے ساراخرچ وہ برداشت کرینگے ۔والد صاحب تیار ہو ئے تو اس شرط پر کہ بمبئی پہنچ کر میں آپ کو انشا ء اللہ ضرور حج کیلئے جانے کی سبیل نکال لوں گا مگر پھر بمبئی سے میں یونہی گھر نہ لوٹوں گا بلکہ آپ کے ساتھ ہی رہوں گا اور آپ کو میرا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا ۔انہوں نے مذاق سمجھتے ہوئے اور اپنی دل کی لگی  کے پیش نظر رداداری میں کہدیا اچھا چلئے دیکھا جائیگا اللہ آپ کے لئے بھی راستہ پیدا کر دیگا اور مجھ سے جو ہوسکےگا کروں گا۔چنانچہ والد صاحب انہیں کے وعدہ پر ان کے ساتھ بمبئی چلے گئے صرف احتیاطاً دو تین سو روپیے جو فی الوقت دستیاب ہو سکے رکھ لئے ۔وہاں پہنچ کر والد صاحب دخانی جہاز میں ان کے لئے  بہت کوشش کی مگر جگہ نہ مل سکی تب والد صاحب نے ان کو رائے دی کہ ہوائی جہاز سے چلے جائیے کچھ رقم زیادہ لگ جائے گی اور واپسی میں دخانی جہاز میں جگہ مل جائے گی  ،وہ تیار ہو گئے اس طرح سے والد صاحب نے ہوائی جہاز میں جو ڈاک کا تھا انکے لئے جگہ حاصل کرلی اور ان صاحب کے حسب وعدہ خود بھی ہوائی جہاز سے سفر کیلئے  ان سے کہا کہ آپ کم از کم ایک طرف کا ٹکٹ میرے لئے بھی لیں مگر خلاف توقع بجائے دخانی جہاز کے ہوائی جہاز کا ٹکٹ لینے میں انہیں کا روپیہ زیادہ لگ گیا  اور رقم نہ بچی تو مجبوری ظاہر کی  والد صاحب تو یہاں کہہ کر گئے تھے کہ میں واپس نہ ہوں گا۔اس لئے یہاں گھر پر تار بھیجا کہ فوراًاتنا روپیہ مہیا کر کے بھیجو کسی  بھی طرح سے انکو مطلوبہ رقم مہیا کر کے بھیج دی گئی اور وہ  بھی اسی جہاز سے حج کے لئے روانہ ہو گئے۔والد صاحب کہتے تھے وہاں جب حرم شریف میں حاضری ہوئی تو اس وقت جیب میں صرف 4 روپیے تھے۔اب تشویش ہوئی کہ یہاں تک پہونچ توگئے مگر اخراجات کا کیا انتظام ہوگا؟کہتے تھے کہ اسی فکر و تشویش میں  بیٹھا تھا کہ مؤ کے جناب حکیم مولانا منیر الدین صاحب (میرے شیخ)دکھائی دیے جو والد صاحب کو دیکھ کر ان سے ملنے کیلئے آ رہے تھے۔ملاقات ہوئی سلام و مصافحہ  کے بعد خیر خیریت پوچھا اور ابّا کو متفکر محسوس کر کے اس کی وجہ بااصرار پوچھی تو پوری بات والد صاحب نے  انکو بتائی ۔حکیم صاحب نے فرمایا بس اتنی سی بات سے آپ متفکر ہیں اور وہ بھی اللہ کے گھر میں آپ بالکل بے فکر رہیں ۔اور پھر غالباً سو ریال فوراً  نکال کر والد صاحب کو دئیے اور یہ بھی کہا کہ آپ میرے ساتھ  ہی قیام کریں اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے والد صاحب کی تشویش دور کرکے اطمینان کے ساتھ بہت عمدگی سے پورا حج کرادیا۔واپسی میں   دخانی جہاز سے آنا ہوا۔

Comments

Popular posts from this blog

حضرت سید سالار مسعود غازیؒ

حضرت سید سالار مسعود غازیؒ- جنید احمد نور

Bahraich Great Freedom Fighters (Hindi and English)