آہ! استاذ الشراء اظہارؔ وارثی


آہ!  استاذ الشراء  اظہار         ؔ وارثی

بہت قریب ہیں ہم تھوڑا فاصلہ کر لیں۔۔۔۔۔اظہار       ؔوارثی


 
      اظہار         ؔ وارثی صاحب کی ایک یادگار تصویر

 ایک کمرے میں کرسی رکھی ہوئی ہے جس  کے بغل میں ایک ٹہنی رکھی ہوئی ہے اور کرسی پر ایک دبلے پتلے سے بزرگ  انسان لنگی اور کرتا پہنے ہوئے ،سر پر کپڑے کی ٹوپی ،  آنکھوں پر کبھی کالا چشمہ   لگائے ہوئے  کرسی کے بغل میں میز پر دوائے اور کچھ رسالے رکھے ہوئے ساتھ میں ہی   ایک سیمسنگ کا اسکرین ٹچ والا بہترین  موبائل رکھا ہوا ہےجس سے آپ اپنے دوستوں احباب کو واٹس اپ اور فون کے ذریعہ رابطہ  کرتے ، کمرے کی ایک دیوار پر کچھ اسناد فریم کی ہوئی لگی ہیں۔ملنے آنے والوں کے لئے کرسی کا انتظام  ہیں۔یہاں بیٹھنے والے بزرگ   شخص کوئی معمولی شخص نہیں  بلکہ وہ شہر بہرائچ کے عظیم الشان شاعر  جناب اظہار وارثی صاحب  تھے۔

اظہارؔ وارثی صاحب مرحوم کے ساتھ جناب احمد نثار اور میرے ماموں محمد فیض اللہ فیض ؔ بہرائچی اور جنید احمد نور 
علاقہ اودھ کے مشہور و معاروف شاعر  اظہارؔ وارثی صاحب کا  تین دن قبل بروز منگل ۹ ذی الحجه ۱۴۳۹ھ مطابق۲۱ اگست ۲۰۱۸ء کی شام چار بجے کےقریب انتقال فرما گئے۔ انا للہ واناالیہ راجعون۝           اظہار ؔ صاحب کی نماز جنازہ مسجد چھوٹی تکیہ   بہرائچ میں بروز بدھ ۱۰ ذی الحجه ۱۴۳۹ھ مطابق۲۲ اگست ۲۰۱۸ء  کو بعد نماز عید الضحیٰ   پڑھی گی اور تدفین   تکیہ کرم علی شاہ المعروف چھوٹی تکیہ میں ہوئی ۔جس میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے ۔آمین
اظہار ؔ صاحب      کی پیدائش  صوبہ اتر پردیش  کے علاقہ  اودھ کے تاریخی شہر بہرائچ میں 21 نومبر 1940ء کو حکیم محمد اظہرؔ وارثی کے یہاں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام حکیم اظہرؔ وارثی اور والدہ کا نام کنیز سکینہ تھا۔آپ کے والد مولانا ابو کلام آزادؔ کے شاگرد تھے۔ اظہار ؔصاحب کے دادا  حکیم مظہر علی کے بڑے بھائی حکیم صفدرعلی وارثی  صفاؔ اور والد حکیم اظہرؔ وارثی شہر کے مشہور معالجین میں شمار ہوتے تھے۔ حکیم صفدر علی وارثی صفاؔ صاحب حاجی وارث علی شاہ   ؒ کے مرید تھے اور حاجی وارث علی شاہ    ؒ پر ایک کتاب لکھی جس کا نام جلوۂ وارث ہے۔ یہ کتاب اردو میں ہے اور نایاب ہے۔ یہ کتاب کتب خانہ  درگاہ شریف بہرائچ میں موجود ہے۔ اظہار ؔ صاحب کے والد حکیم اظہرؔ استاد شاعروں میں شمار ہوتے تھے۔ اظہار  ؔ صاحب سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوئے تھے۔آپ کی ایک خاص بات تھیں  کہ  آپ صرف شعر لکھتےتھے کسی مشاعرہ میں پڑھنے نہیں جاتے تھے۔آپ ایک اعلیٰ درجے کے شاعرتھے۔ آپ اردو شاعری میں نئے نئے تجربات کرنے کے لیے مشہور اور معروف تھے۔ آپ نے اردو شاعری کی تمام اصناف میں اپنے کلام کا جادو بکھیرا اورکئی نئی  قسمیں ایجاد کیں۔ آپ نے 11 اصناف میں شاعری کی ہے۔ 1) غزل 2) نظم، نظم کی مشہورقسمیں ہیں (ا) پابند نظم (ب) آزاد نظم (ج) معرا نظم (د) نثری نظم۔ 3) رباعی 4) قطعات 5) ثلاثی 6) ماہئے 7) ہائکو 8) دوہے 9) بروے(اردو میں بروے اور چھند کو رائج کیا) 10).سانیٹ (14مصرعوں کی نظم انگرزی میں ہوتی ہے.) 11) ترایلے (یہ فرانسیسی زبان میں 8 مصرعوں کی ہوتی ہے)۔اس کے علاوہ مہتابی غزل اور لوک غزل کا ایجاد بھی آپ نے کیا ۔

پروفیسر مغنی تبسم اظہار ؔ وارثی کے بارے میں لکھتے  ہیں :

اظہارؔ وارثی جدید دور کے ایک اہم نمائندہ شاعر ہیں۔انہوں نے نظم ،غزل،رباعی،قطعہ،دوہا،ماہیا،ثلاثی،ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے اور ان میں سے ہرصنف کو کامیابی سے برتا ہے اور اس کا حق ادا کیا ہے۔اظہار وارثی ایک باشعور اور حساس فن کار ہیں۔اپنے ملک کے سماجی اور سیاسی حالات کے علاوہ عالمی مسائل پر ان کی گہری نظر ہے۔ان حالات اور مسائل پر کبھی بہ راہِراست اور کبھی استعاروں اور کنایوں میں اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔جن نظموں میں بہ راہِ راست خیالات اور جذبات کا اظہار کیا گیا ہے ان کو احساس کی شدت نے اثر انگیز بنا دیا ہے۔ اظہار وارثی کی اس نوع کی نظموں میں ’سوچ‘،’دشمنی کیوں‘،’دیوار‘،’جڑواں نظمیں ‘،’وعدوں کاموسم‘،اور ’میں نہیں جانتا‘،’بچے مفلس‘کے قابل ذکر ہیں۔
آپ نے پانچ کتابیں  تصنیف کی  جو اس طرح ہیں :
  (۱)  کبوتر سبز گنبد کے (۲) کشتِ خیال (۳)  سونچ کی آنچ (۴) بوند بوند شبنم(۵) شبِ تنہائی کا چاند
اس کے علاوہ ایک کتاب آپ کی شخصیت پراظہارؔ وارثی شخصیت اور فن کے نام سے  جناب شارق ؔ ربانی نے ۲۰۱۷ ء میں مرتب  کیا۔
 جناب اظہار ؔ وارثی صاحب  مرحوم کے ساتھ جناب واصف ؔ فاروقی صاحب اور جنید احمد نور ایک ملاقات کے دوران 

اردو اکادمی اترپردیش، انجمن ترقی پسند مصنفین نے آپ کو اعزازات اور اسناد سے سرفراز کیا ہے۔ ڈی۔ایم۔بہرائچ اور دیگر ادبی تنظیموں نے بھی آپ کو اعزازات اور سند سے سرفراز کیاہے۔ آپ کا جشن بھی منایا گیا، 9 جون 1979کو نگر پالیکا بہرائچ کے ہال میں جس میں ہندوستان کے نامور شعراء نے شرکت کی تھی۔ خاص مہمانوں میں حسرت ؔجے پوری، غلام ربانی تاباںؔ، خمارؔ بارہ بنکوی، معین احسن جذبیؔ، ناظر خیامی، ہلالؔ سیوہاروی، ایم.کوٹہوری راہی ؔاور بیگم بانو دراب وفاء ؔوغیرہ تھے۔
 لیکن آج افسوس اس بات کا بہرائچ کی سرزمین پر اس نایاب ہیرے کو وہ مقام نہیں ملا جس کا وہ حقدار تھے۔اظہار ؔ وارثی صاحب صحت خراب ہونے کے باوجود اپنے گھر پر ہر روز تین گھنٹہ کے لئے گھر کے باہری کمرہ میں بیٹھتے تھے ۔ جہاں آپ ملنے والوں سے ملاقاتے کرتے تھے۔راقم الحروف نے اظہار  ؔ صاحب سے ان  گنت ملاقاتیں  کیں۔ اظہار ؔ صاحب  راقم الحروف کو بہرائچ کے تاریخ پر ایک کتاب لکھنے کو کہا تھا جس پر راقم کام انکی حیات میں ہی تقریباً مکمل کر لیا تھا اور اظہار ؔ صاحب کے نیک  مشوروں سے   آراستہ بھی ہیں۔ انشاء اللہ وہ کتابی شکل میں منظر عام پر ہوگی ،لیکن افسوس اس پر نظر ثانی  کرنے کے لئے اظہار صاحب نہیں ہونگے۔ اظہار صاحب اکثر یہ شعر کہا کرتے تھے؎

ہر نفس صبر آزما ہے اور میں
زندگی کی کربلا ہے اور میں
یاد ماضی، آج کا غم، کل کے خواب 
سوچ کا اک سلسلہ ہے، اور میں



Comments

  1. یاد رفتگاں : بیاد اظہار وارثی مرحوم
    احمد علی برقی اعظمی
    ہوگئے اظہاررخصت چھوڑ کر دارالفنا
    جن کے سینے میں دھڑکتا تھا دلِ درد آشنا
    شہر بہرایچ کی ادبی محفلوں کی جان تھے
    ان کے گلہائے سخن سب کے لئے ہیں جانفزا
    سب کا منظور نظر ہے ان کا معیاری کلام
    ان کے حسنِ فکر و فن پر مرحبا صد مرحبا
    خانۂ کعبہ میں جس دم کررہے تھے لوگ حج
    چل دئے دارالفنا سے جانبِ دار البقا
    جنت الفردوس میں درجات ہوں ان کے بلند
    تا ابد نازل ہو ان پر رحمت و فضلِ خدا

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

حضرت سید سالار مسعود غازیؒ

حضرت سید سالار مسعود غازیؒ- جنید احمد نور

Bahraich Great Freedom Fighters (Hindi and English)